تحریر : قادر خان یوسف زئی پاکستان نے امریکا سمیت اقوام عالم کو زمینی حقائق سے آگاہ کرتے ہوئے واضح بیانیہ دیا تھا کہ افغانستان میں قیام امن کے لئے اب جنگ نہیں بلکہ مذاکرات کی ضرورت ہے۔ امن کا قیام جنگ سے نہیں بلکہ مذاکرات کرنے سے ہی عمل میں لایا جا سکتا ہے۔پاکستان نے اس کی وجہ بھی بتادی تھی کہ افغانستان سیکورٹی فورسز مسلح مزاحمت کو روکنے کی صلاحیت نہیں رکھتی ۔ صاف ظاہر ہوچکا ہے کہ افغان سیکورٹی فورسز سمیت امریکا 17برس کی لاحاصل جنگ میں افغانستان کے اہم علاقوں کو کھوچکا ہے اور امارات اسلامیہ ( افغان طالبان) کے زیر انتظام افغانستان کے کئی صوبے و علاقے ہیں۔ افغان طالبان کی جانب سے اپنے زیر انتظام علاقوں میں سڑکوں کی تعمیر سمیت انتظامی امور آزادنہ سر انجام دیئے جا رہے ہیں ۔ ان کے مسلح دستے اپنے زیر انتظام علاقوں میں گشت کرتے ہیں اور عام شہریوں سے ملکر ان کے مسائل بھی معلوم و حل کرتے ہیں۔ غیر جانب دار میڈیا افغان طالبان کے زیر قبضہ علاقوں کا دورہ بھی کر چکا ہے۔
عام شہریوں کے ساتھ افغان طالبان کی سیلفیاں ، پمفلٹ کی تقسیم اور دیگر عوامی رابطوں کی ان گنت ویڈیوز سوشل میڈیا میں دستیاب ہیں۔ ان سب حقائق کی تصدیق کے لئے صرف ایک مثال ہی کافی ہے کہ ترکمستان سے براستہ افغانستان ، پاکستان اور بھارت جانے والی تاپی گیس لائن منصوبے کی حفاظت کی ضمانت افغان طالبان نے باقاعدہ طور پر دیتے ہوئے اپنے موقف کا پھر اعادہ کیا کہ عوامی مفاد عامہ کے منصوبوں کو نقصان نہیں پہنچایا جائے گا بلکہ ان کی حفاظت کی جائے۔
کابل میں صدر اشرف غنی نے28فروری کو دوسری کابل پراسس کانفرنس کا انعقاد کیا ۔ جس میں انہوں نے امارات اسلامیہ کو ایک سیاسی جماعت کے طور پر تسلیم کرتے ہوئے کو مذاکرات کی دعوت اور چندمعاملات میں تعاون کی پیش کش بھی کی۔ افغان صدر اشرف غنی نے امارات اسلامیہ کی سیاسی قوت کو تسلیم کرتے ہوئے افغان طالبان کو کابل میں سیاسی دفتر کھولنے پر ایلچیوں کی حفاظت کی یقین دہانی کرانے کی کوشش کی۔ امریکی جارحیت کے 17برس میں کابل حکومت کی پیش کش کو تاریخی موڑ قرار دیا جا رہا ہے۔ افغان طالبان رہنمائوںکے پاسپورٹ و خاندانوں کو ویزہ دینے اور عالمی پابندیوں کی بندش کے خاتمے میں تعاون کی یقین دہانی اور قیدیوں کی رہائی کے حوالے سے بھی لچک کا مظاہرہ کیا ۔ کابل انتظامیہ نے توقع ظاہر کی ہے کہ امارات اسلامیہ اپنا سیاسی دفتر کابل میں کھولنے پر رضا مند ہو جائیں۔
اشرف غنی نے افغان طالبان کو یہ پیش کش بھی کی وہ اپنے مرضی کی جگہ یا ملک میں بھی مذاکرات کرسکتے ہیں۔اس پیش کش پر افغانستان کے لیے جرمنی کے نائب سفیر آندرس فان برینڈٹ نے اپنے بیان میں کہا کہ ان کا ملک بون، برلن یا کسی بھی دوسرے شہر میں امن مذاکرات کی میزبانی کے لیے تیار ہے۔ افغانستان اور پاکستان کے لیے جرمنی کے خصوصی مندوب مارکوس پوٹسل نے بدھ کو ‘کابل پراسس’ کانفرنس میں شرکت تھے۔ تاہم صدر اشرف غنی نے تمام پیشکشوں میں سب سے بڑی رکائوٹ بھی از خود پیدا کردی تھی کہ افغان طالبان ، افغانستان کے موجودہ آئین کو تسلیم کرلیں۔ جنگ بندی کریں اور ایک سیاسی جماعت کی حیثیت سے انتخابات میں حصہ لیں۔ واضح رہے کہ2001میں بون کانفرنس میں حامد کرزئی کو افغانستان کا صدر بنا دیا گیا تھا اور افغان طالبان نے اپنے زیر انتظام کچھ صوبے بھی کابل حکومت کے حوالے کردیئے تھے لیکن 8برس تک سعودی عرب کے شہر ریاض میں امریکا اور افغان طالبان کے مذاکرات کسی نتیجے تک نہ پہنچ سکے اور افغان طالبان کی مسلح مزاحمت میں تیزی آتی چلی گئی ۔ 2011میں جرمنی نے مفاہمت کی کوشش کی لیکن ایک برس کی تگ و دو بھی ثمر باآور نہ ہو سکی۔
2013میں قطر میں سیاسی رابطے کے لئے دفتر کھولا گیا لیکن سابق صدر حامد کرزئی نے قطر سیاسی دفتر کے قیام کے موقع پر امارات اسلامیہ کے پرچم اور نام پر اعتراض کرتے ہوئے عین وقت پر مذاکرات کرنے سے انکار کردیا تھا جس پر20جون 2013کو امارات اسلامیہ کے دفتر کے پرچم کو اتار دیا گیا اور مفاہمت کا عمل جمود کا شکار ہوگیا۔ پاکستان نے پھر بھی کوشش جاری رکھی اور مری میں افغان طالبان کے رہنما با مقصد مذاکرات کو بڑھانے کے لئے راضی ہوئے لیکن امریکا کی جانب سے ملا عمر مجاہد کے انتقال کی خبر افشا کئے جانے کے عمل کی وجہ سے افغان طالبان کے ساتھ امن مذاکرات کا عمل تعطل کا شکار ہوگیا ۔ پاکستان نے امارات اسلامیہ کے نئے امیر ملا اختر منصور سے رابطہ برقرار رکھا کیونکہ سربراہ ملا عمر مجاہد کے انتقال کے بعد دو برس سے غیر اعلانیہ طور پر ملا اختر منصور افغان طالبان کی قیادت کررہے تھے۔ ملا اختر منصور کو ایک مرتبہ پھر مذاکرات کی میز پر لانے کی پاکستان نے کوشش کی لیکن ایران سے واپسی پر پاک ۔ افغان سرحد پر ملا اختر منصور کی گاڑی پر ڈرون حملہ کردیا گیا ۔ ملا اختر منصور کے جاں بحق ہونے کے بعد مذاکرات عمل مکمل طور پر جمود کا شکار ہوگیا اور بعد ازاں صدر ٹرمپ کی جنوبی ایشیائی بالخصوص افغان سخت گیر پالیسی نے معاملات کو مزید خراب کردیا ۔ امریکا ، افغانستان میں اپنی شکست کا ذمے دار پاکستان کو ٹھہرانے لگا اور پاکستان پر عسکری امداد کی بندش سمیت واچ لسٹ میں نام شامل کئے جانے کے علاوہ باقاعدہ سنگین نتائج کی دہمکیاں دی جانے لگیں۔پاکستان نے افغانستان میں امریکی جنگ کو دوبارہ پاکستان میں لانے سے انکار کردیا اور چیف آف آرمی اسٹاف قمر جاوید باجوہ نے میونخ سیکورٹی کانفرنس میں دو ٹوک پیغام دے دیا کہ چالیس سال قبل اختیار کی جانے والی پالیسی غلطی تھی ۔ یہ بڑا اور دو ٹوک بیانیہ تھا۔ جس نے امریکا کے غصے میں اضافہ کیا۔
2018میں ایک ماہ کے دوران افغان طالبان نے دو اعلامیے جاری کیے ہیں، جن میں افغان تنازعے کے پر امن حل کے لیے آمادگی ظاہر کی گئی ہے لیکن ان اعلامیوں میں کابل حکومت کے بجائے امریکا کو سیاسی دفتر سے رابطہ کرنے کے لئے کہا گیا تھا ۔ کابل کی جانب سے چند پیشکشوں کا اعلان کیا گیا تھا یہ مطالبات افغان طالبان کئی مرتبہ کرچکے ہیں۔ لیکن امریکا کی جانب سے ہمیشہ افغان طالبان کے جائز مطالبات ماننے سے انکار کرتے ہوئے صدر ٹرمپ نے سختی برتتے ہوئے افغان طالبان سے مذاکرات کرنے سے مکمل انکار کردیا تھا اور صدر اشرف غنی نے بھی بدلہ لینے کا اعلان کرڈالا تھا۔ بعد ازاں امریکی انتظامیہ نے صدر ٹرمپ کے بیان کا دفاع کرتے ہوئے ایسے کابل حملوں کا ردعمل قرار دیا تھا اور اب اشرف غنی بھی امارات اسلامیہ سے مذاکرات کے لئے بین الاقوامی کانفرنس منعقد کرنے میں مجبورہوگئے ہیں۔ دیکھا جائے تو اشرف غنی کی جانب سے یہ پیش کش ذاتی حیثیت میں قرار نہیں دی جاسکتی کیونکہ 25ممالک اس کانفرنس میں شریک تھے اور کابل ازخود کوئی پیش کش کرنے کی استعداد نہیں رکھتا ۔ اگر امریکا زمینی حقائق کا ادارک کرتے ہوئے ان پیش کشوں کا خود اعلان کرتا تو افغان طالبان اور امریکا کے درمیان با مقصد مذاکرات ممکن ہوسکتے تھے۔
تاہم اس بات کی توقع کی جا رہی ہے کہ بیک ڈور چینل سے غیر اعلانیہ مذاکرات ہونگے اور پاکستان اس میں اپنا اہم کردار ادا کرسکے گا گو کہ افغان طالبان پر پاکستان کا اثر رسوخ کم ہوچکا ہے لیکن افغان طالبان نے امن مذاکرات کے لئے امریکہ کو جو پیش کش کی اس کے پس منظر میں دوست ممالک کا دبائو ہی بتایا گیا ہے۔ جسے افغان طالبان ناراض بھی نہیں کرسکتا۔ دوسری جانب اہم بات یہ بھی ہے کہ امارات اسلامیہ کابل کی کٹھ پتلی حکومت کو ہی تسلیم نہیں کرتی بلکہ ان کی جانب سے مطالبہ کیا جا چکا ہے کہ افغانستان کا اقتدار امارات اسلامیہ کے حوالے کردیا جائے کیونکہ افغانستان کے 70فیصد علاقے افغان طالبان کے زیر انتظام ہیں۔ افغان امن کانفرنس میں25سے زائد ممالک اور بین الاقوامی تنظیموں کے نمائندے شریک ہو ئے۔کانفرنس میں پاکستان کی نمائندگی سیکرٹری خارجہ تہمینہ جنجوعہ جب کہ بھارتی وفد بھارتی سیکریٹری خارجہ منصب وجے گھوگلے کی قیادت میں شریک ہوئے۔پاکستان نے افغان صدر اشرف غنی کی جانب سے افغانستان میں قیامِ امن کے لیے افغان طالبان کو مذاکرات کی پیشکش کرنے کا خیر مقدم کیا ہے۔ اسلام آباد میں تعینات افغانستان کے سفیر عمر زخیلوال نے پاکستان کی قومی سلامتی کے مشیر ناصر خان جنجوعہ سے ملاقات کر کے اُنھیں آگاہ کیا کہ طالبان کو امن مذاکرات کی دعوت کے ساتھ ساتھ خطے میں امن کے فروغ اور استحکام کے لیے صدر اشرف غنی نے پاکستان سے قریبی رابطوں کا بھی پیغام دیا ہے۔ کابل پراسس نامی اس کانفرنس کو صدارتی ترجمان ہارون چخان سوری نے غیر مشروط قرار دیا تھا ۔ لیکن امارات اسلامیہ کی جانب سے کابل حکومت کو ہی تسلیم نہ کئے جانا اہم معاملہ ہے۔
بامقصد مذاکرات کے لئے باہمی مسلسل رابطوں کی اہمیت پر زور ڈالا جارہا ہے۔ کابل پراسس کانفرنس پر افغان طالبان کی خاموشی معنی خیز ہے اور اندازے لگائے جا رہے ہیں کہ بامقصد مذاکرات کے لئے اہم قوتیں مصروف ہوچکی ہیں ۔ افغان طالبان کی جانب سے ایک کھلے خط میں امریکی کانگریس و عوام کو مخاطب کرتے ہوئے امن تصفیہ کے لئے مذاکرات کی پیش کش کی گئی تھی ۔حالیہ اجلاس سے قبل منگل کے روز کابل میں چوتھا امریکہ، بھارت اور افغانستان سہ فریقی اجلاس منعقد ہواتھا جس کے بعد اگلے دن افغان صدر نے پاکستان سے سرکاری سطح پر مذاکرات اور افغان طالبان کو کابل دفتر کھولنے کی درخواست کی ۔ 28فروری کو ہونے والے اجلاس کی بریفنگ کے آغاز پر امریکا محکمہ خارجہ کے ترجمان نوئرٹ نے اعتراف کیا کہ ”افغان مسئلے کا کوئی فوجی حل نہیں۔ با الآخر یہ سیاسی حل ہوگا۔ اور یہ اسی وقت ہوگا جب(افغان) طالبان مل بیٹھیں اور بات چیت کریں۔ یہی بہترین طریقہ ہے جس سے افغانستان میں امن آئے گا۔” کابل پراسس کانفرنس میں صدر اشرف غنی نے پاکستان کی اہمیت کو بھی تسلیم کرتے ہوئے کہا کہ ماضی بھلا کر” نئے باب” کا آغاز کرنا چاہتے ہیں ۔ پاکستان سرکاری سطح پر مذاکرات کرے۔ امریکی فوج کے سربراہ جنرل جوزف ووٹل نے بھی اعتراف کیا ہے کہ جنوبی ایشیا میں امن کے حصول کے لیے پاکستان نے اپنی سرزمین پر چند مثبت اقدامات کیے ہیں جس سے اشارہ ملتا ہے کہ پاکستان صحیح سمت میں جا رہا ہے۔امریکی کمانڈ کے سربراہ نے یہ بیان منگل کو کانگریس کی دفاعی کمیٹی کی انتہا پسندی سے جڑے خطرات پر ہونے والے اجلاس کے دوران دیا تھا۔ان کا کہنا تھا کہ خطے میں امن اور افغانستان میں کامیابی کے لیے پاکستان کے ساتھ تعاون اور گہرے تعلقات بہت اہم ہیں۔
میں فی الحال یہ تو نہیں کہہ سکتا کہ اعتماد کی کمی نہیں کیونکہ دونوں ملکوں کے تعلقات کی ایک لمبی تاریخ ہے لیکن میں یہ ضرور کہوں گا کہ ہماری تازہ بات چیت کے بعد ہمیں مثبت اشارے ملے ہیں۔’امریکی سفارت خانے کے مطابق امریکی صدر کی نائب معاون اور یو ایس نیشنل سیکیورٹی کونسل کی سینئرڈائریکٹر برائے جنوبی ووسط ایشیا لیزا کرٹس نے دورہ ِ اسلام آباد میں پاکستان کی قربانیوں کا اعتراف کیا اور اپنے بیا ن میں کہا کہ لیزاکرٹس نے پاکستانی حکام سے ملاقاتوں کے دوران کہا کہ امریکہ پاکستان کے ساتھ” نئے تعلقات” کی جانب گامزن ہونا چاہتا ہے، جس کی بنیاد اس مشترکہ عزم پر مبنی ہو کہ ہم مل کر ان سب دہشتگرد گروہوں کو شکست دیں گے جو علاقائی استحکام وسلامتی کے ساتھ ساتھ افغانستان کے پرامن مستقبل کے مشترکہ خواب کے لیے بھی خطرہ ہیں۔ انہوں نے دہشت گردی کے خلاف لڑائی میں پاکستان کی نمایاں قربانیوں کا اعتراف کیا۔امریکہ کی نائب معاون وزیر خارجہ برائے جنوبی و وسط ایشیائی امور، ایلس ویلز نے کہا ہے کہ ”امریکہ پاکستان کو افغانستان میں استحکام کے حل کا ایک انتہائی کلیدی جُزو گردانتا ہے”۔اُنھوں نے کہا ہے کہ ”موجودہ امریکہ۔پاکستان تعلقات سے ہرگز یہ نہ سمجھا جائے کہ ہم اِس تعلق کو ترک کرنے کا سوچ رہے ہیں”۔
واضح رہے کہ امارات اسلامیہ ( افغان طالبان) کابل پراسس کانفرنس سے قبل ہی امریکی انتظامیہ کو مذاکرات کی پیش کش کرچکے تھے۔ انہوں نے یہ پیش کش جنوبی اور مرکزی ایشیا کے امور امریکی وزارت خارجہ کی نائب ایلس ویلز کی جانب سے دیئے جانے والے اس بیان کے ردعمل میں دیا تھا جس میں ان کا کہنا تھا” کہ امریکہ نے طالبان کے لیے مذاکرات کے دروازے کھلے رکھے ہیں”، تو اس بارے میں امارت اسلامیہ افغانستان کے سیاسی دفتر نے اپنا موقف دیتے ہوئے کہا کہ “امریکی حکام کو امارت اسلامیہ کاسیاسی دفتر بتاتا ہے کہ افغان مسئلے کے پرامن حل کے لیے امارت اسلامیہ کے سیاسی دفتر سے براہ راست گفتگو کے لیے رابطہ کریں۔مسئلے کے حل کے لیے بہتر یہ ہے کہ امریکی پہلو افغان عوام کے جائز مطالبات کو تسلیم کریں اور اپنی رائے اور مطالبات پرامن طریقے کے ذریعے امارت اسلامیہ سے بحث کے لیے پیش کریں۔امارت اسلامیہ نے چند روز قبل بھی امریکی عوام اور اراکین کانگریس کو کھلے خط میں واضح کردیا کہ جنگ ہمارا انتخاب نہیں ہے، بلکہ ہم پر مسلط کی گئی ہے۔ہم جارحیت کے خاتمے کے لیے افغان تنازعے کا پرامن حل چاہتے ہیں۔اب امریکہ اور اس کے متحدین کو ثابت ہوا ہے،کہ افغان تنازعہ کا فوجی حل نہیں ہے۔
امریکہ مزید افغانستان میں جنگ کے بجائے صلح کی پالیسی پر توجہ دیں۔ استعمال شدہ فوجی مشن گذشتہ17برسوں میں بار بار تجربہ ہوچکا ہے،جو جنگ میں صرف تیزی اور طول لاتی ہے، جو کسی کے مفاد میں نہیں ہے۔”امریکا اور امارات اسلامیہ کے درمیان قیام امن کے لئے براہ راست مذاکرات کا یہ نادر موقع ہے کہ اگر امریکا چاہے تو امارات اسلامیہ کے سیاسی دفتر سے رابطہ کرکے پُر امن طریقے سے افغانستان میں مستحکم امن کے قیام میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔ لیکن امارات اسلامیہ کا کابل حکومت سے براہ راست مذاکرات کا کوئی فائدہ اس لئے نہیں تھا کیونکہ دنیا جانتی ہے کہ کابل ا نتظامیہ امریکا کی کٹھ پتلی حکومت ہے جس کے پاس افغانستان امن کے لئے فیصلہ کن اختیارات نہیں ہیں اورکابل حکومت کا بیانیہ وہی ہوتا ہے جو امریکا اسے ڈکٹیشن دے ۔ اگر کابل حکومت خود مختار ہوتی تو افغانستان میں قیام امن کے لئے کی جانے والی پاکستان کی کوششوں کو تسلیم کرتے ہوئے الزام تراشیاں کرنے سے گریز کرتی ۔ لیکن ایک جانب کابل نے اپنا کندھا امریکا کو دیا ہوا ہے تو دوسری جانب اپنے منہ میں بھارتی زبان رکھ کر پاکستان کے خلاف دشنام طرازی کرنے کا کوئی موقع ضائع نہیں کرتا ۔
دوئم کابل پراسس کانفرنس میں صدر اشرف غنی کی جانب سے بالا آخرپاکستان کی اہمیت کا اعتراف ثابت کرتا ہے کہ افغانستان میں جنگ کے بجائے امن کے لئے بامقصد و مثبت مذاکرات کو فروغ دیا جائے۔ کابل اور واشنگٹن جانتے ہیں کہ افغانستان میں بے امنی سے پاکستان سب سے زیادہ متاثر ہو ا ہے ۔ بھارت کا کردار سازشی ہے ۔ چاہ بہار بندرگاہ سے تجارتی سامان کی پہلی ترسیل میں ہی ثابت ہوگیا کہ پاکستان کو سائیڈ لائن لگانے سے نقصانات زیادہ ہیں۔ چند مہینوں بعد پاکستان کی گوادر بندرگاہ سے باقاعدہ تجارتی بنیادوں پر آپریشن کا آغاز شروع ہو جائے گا ۔ ان شا اللہ ۔ جس کے بعد افغانستان کو مہنگے و بھاری اخراجات سے بچنے اور کم ازکم وقت میں تجارتی سامان کی ترسیل ممکن ہوجائے گی۔ خود امریکا کی بھی خواہش سامنے آچکی ہے کہ افغانستان میں ان کے فوجیوں کے لئے گوادر پورٹ سے نیٹو سپلائی دینے کی اجازت دی جائے ۔ کراچی سی پورٹ کے مقابلے میں گوادر پورٹ اور سی پیک میں زمینی راستہ سہل ، جلد اور محفوظ ہوگا ۔ لیکن اب تک موصولہ معلومات کے مطابق افغانستان کو چینی اور پاکستانی مصنوعات ہی سی پیک کے راستے پہنچائی جا سکتی ہیں۔ بھارت کے لئے اقتصادی راہدری میں پاکستان ، بھارت کو محفوظ و سہل راستہ دینے میں تحفظات کا شکار ہے۔ جس طرح امریکا ، افغانستان میں بھارت کے کردار کو بڑھانے اور پاکستان کی اہمیت کم کرنے کی کوشش کررہا ہے ۔ اس عمل سے پاکستان کو دو جانب سے گھیرا جا رہا ہے ۔ جو مملکت کی سلامتی و بقا کے لئے بڑا خطرہ ہے۔
افغانستان میں قیام امن کے لئے امریکا کو براہ راست امارات اسلامیہ سے ہی با مقصد کرنے کی ضرورت ہے۔ گو کہ امریکی عزائم منکشف ہوچکے ہیں کہ وہ افغانستان میں قیام امن کے لئے سنجیدہ نہیں ہے بلکہ این ڈی ایس ، را ، موساد اور سی آئی اے جیسی بد نام زمانہ ایجنسیوں کو بے امنی کے لئے استعمال کررہا ہے ۔ انخلا کے بجائے مسلسل امریکی فوج میں اضافہ کررہا ہے ۔ افغان سیکورٹی فورسز سے ہٹ کر پرائیوٹ فوج کی بھرتی کی جا رہی ہے۔ داعش کی جڑوں کو مضبوط کررہا ہے اور خطے میں پڑوسی ممالک کے لئے بڑے فتنے کی سرپرستی کررہا ہے۔ پاکستان جیسے اہم ملک کے خلاف مسلسل سازشیں کرکے امارات اسلامیہ اور پاکستان کے درمیان غلط فہمیوں کو بڑھانے کی سعی کررہا ہے۔ افغان مہاجرین کی باعزت واپسی کی راہ میں رکائوٹ ڈال رہا ہے تو دوسری جانب 2600کلو میٹر پاک۔ افغان سرحد کو محفوظ بنانے کے لئے کسی قسم کا تعاون نہیں کررہا ہے بلکہ پاکستان کے دشمنوں کو افغانستان میں محفوظ پناہ گائیں د ی ہوئی ہیں۔
شدت پسندوں اور دہشت گردوں کے گڑھ افغانستان میں بنے ہوئے ہیں جہاں سے پاکستان میں دہشت گردی کی کاروائیاں اور سیکورٹی فورسز پر حملے کرائے جاتے ہیں۔ یہ تمام حقائق پاک۔ امریکا تعلقات میں اعتماد کی فضا میں حائل ہیں۔ایک جانب پاکستا ن سے تعاون و تعلقات کی بحالی کی بات کی جائے تو دوسری جانب پشت پر چھرا گھوپنے سے دریغ نہ کیا جائے تو اس دوہرے معیار کے بعد پاکستان کا کردار انتہائی محتاط ہوجاتا ہے ۔ جن گروپوں پر پاکستان کا اثر رسوخ ہوا کرتا تھا امریکی اقدامات کے بعد ان گروپوں کے بھی پاکستان سے تعلقات متاثر ہو ئے ہیں۔ کابل و واشنگٹن قرار واقعی امن کے خواہاں ہیں تو پہلے انہیں اعتماد کی فضا بحال کرنا ہوگی ۔ خاص کر کابل حکومت کو امریکا سے امن کے قیام کی توقع ختم کرنا ہوگی اور کٹھ پتلی بننے کے بجائے اپنے فیصلے خود کرنا ہونگے۔پاکستان کا موقف اب تسلیم کیا جاچکا ہے کہ افغان امن حل جنگ کے ذریعے ممکن نہیں ۔ پاکستان کی جانب سے ان مشوروں پر کابل اور امریکا نے کان نہیں دھرا تھا۔افغانستان میں اس وقت مختلف دھڑے موجود ہیں جو کابل کے خلاف مسلح مزاحمت بھی کرتے ہیں اور سیاسی عمل کا حصہ بھی ہیں ۔ اشرف غنی اعتراف کرچکے ہیں کہ افغان طالبان کے تعاون کے بغیر امن کا قیام ممکن نہیں۔ کابل حکومت کی رٹ اپنی مقامی انتظامیہ پر تقریباََ ختم ہوتی جا رہی ہے اور اعلیٰ حکام کابل حکومت کے احکامات کو رد کردیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سابق افغان صدر حامد کرزئی کہہ چکے ہیں کہ اگر حکومت افغان طالبان کے پاس ہوتی تو افغانستان میں اب تک امن قائم ہو جاتا۔