اسلام آباد (جیوڈیسک) افغانستان کی سیاسی قیادت نے پڑوسی ملک پاکستان میں پولیس کے ایک تربیتی مرکز پر ہونے والے دہشت گرد حملے کی مذمت کرتے ہوئے دہشت گردی کے خلاف مربوط کوششوں کی ضرورت پر زور دیا ہے۔
پیر کو دیر گئے جنوب مغربی شہر کوئٹہ میں ہونے والے اس حملے میں کم ازکم 60 زیر تربیت پولیس اہلکار ہلاک اور 100 سے زائد زخمی ہو گئے تھے جب کہ حکام کے مطابق تینوں حملہ آور بھی مارے گئے۔
افغانستان کے صدر اشرف غنی کی طرف سے جاری ایک بیان میں کوئٹہ واقعے کی پرزور مذمت کرتے ہوئے کہا گیا کہ “دہشت گردی خطے اور دنیا کے استحکام کے لیے ایک مشترکہ خطرہ ہے۔”
ان کے بقول ”دہشت گردی کسی مذہب، قانون، رنگ و نسل کا احترام نہیں کرتی لہذا اب اچھے اور برے دہشت گردوں میں فرق کیے بغیر “ہمیں اس کے خلاف لڑنا چاہیے اور طاقت استعمال کرنی چاہیے۔”
صدر غنی نے حملے کے متاثرین سے دلی تعزیت اور ہمدری کا اظہار بھی کیا۔ افغانستان کے چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ نے بھی حملے کی مذمت کی اور اپنے خیالات کے اظہار کے لیے ٹوئٹر کا سہارا لیا۔
انھوں نے کہا کہ “ریاستی حمایت سے دہشت گردی، درپردہ جنگوں کے لیے فورسز کا استعمال، دہشت گردوں کے درمیان فرق ہمیشہ ایسی ہی تباہی کا باعث بنے گا، دہشت سے انکار کریں۔”
انھوں نے کوئٹہ حملے کے متاثرین سے ہمدردی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ افغان عوام پاکستان کے لوگوں کے ساتھ کھڑے ہیں۔
افغان حکومت کے ایک ترجمان نے کہا ہے کہ افغانستان کی حکومت کوئٹہ میں پولیس سینٹر پر حملے کی شدید الفاظ میں مذمت کرتی ہے اور ساتھ ہی پاکتانی عہدے داروں کی ان باتوں کی بھی سختی سے تردید کرتی ہے جس میں افغانستان کے ملوث ہونے کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔
افغانستان کی طرف سے حالیہ مہینوں میں پاکستان پر یہ الزام عائد کیا جاتا رہا ہے کہ وہ اپنی سرزمین پر ان دہشت گردوں کے خلاف کارروائی نہیں کر رہا جو افغانستان کی سلامتی کے لیے خطرہ ہیں۔
ایسے بیانات کی وجہ سے دونوں ملکوں کے ماضی کی نسبت بہتر ہوتے تعلقات میں ایک بار پھر تناؤ دیکھنے میں آچکا ہے۔
پاکستان ان الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہتا ہے کہ وہ اپنے ہاں تمام دہشت گردوں کے خلاف بلاامتیاز کارروائی کر رہا ہے جب کہ دہشت گردی سے موثر انداز میں نمٹنے کے لیے افغانستان کو اپنی جانب کارروائیاں کرنے کے ساتھ ساتھ دو طرفہ سرحد کی نگرانی میں تعاون کرنا ہو گا۔
دفاعی امور کے تجزیہ کار اور پاکستانی فوج کے سابق بریگیڈیئر سعد محمد خان کہتے ہیں کہ دونوں ملکوں میں عدم اعتماد کو کم کر کے ہی مشترکہ دشمن یعنی دہشت گردی سے کامیابی سے نمٹا جا سکتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ “دونوں ملکوں میں خلیج وسیع ہے ایک دوسرے پر اعتبار ہے ہی نہیں۔ عدم اعتماد ہے دونوں طرف، دونوں ممالک ایک دوسرے سے بات چیت نہیں کر رہے تو کسی تیسرے ملک کو آنا چاہیے درمیان میں اور غیر رسمی ذرائع کو استعمال کیا جانا چاہیے۔”
دہشت گردوں کے خلاف دو سال قبل شروع کی گئی کارروائیوں کے باعث پاکستان میں امن و امان کی صورتحال میں بہتری دیکھنے میں آئی تھی لیکن رواں سال کے اوائل سے ایک بار پھر خاص طور پر ملک کے شمال اور جنوب مغربی حصوں میں کئی ایک ہلاکت خیز واقعات رونما ہو چکے ہیں۔
سکیورٹی فورسز کی کارروائیوں سے دہشت گرد حملوں کی تعداد میں تو کمی دیکھی جا رہی ہے لیکن ان کی شدت میں ماضی کی نسبت اضافہ ہوا ہے۔
کوئٹہ میں ہونے والے حملے کی مقامی و بین الاقوامی سطح پر بھی مذمت کی گئی ہے۔ ملک کی تمام بڑی سیاسی جماعتوں کے قائدین نے اس واقعے میں ہلاک و زخمی ہونے والوں کے خاندانوں سے اظہار ہمدردی کرتے ہوئے دہشت گردی کے خلاف اپنے عزم کا اظہار کیا۔
امریکہ بھی کوئٹہ حملے کی مذمت کرتے ہوئے کہہ چکا ہے کہ دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے وہ پاکستان اور خطے میں اپنے اتحادیوں کے ساتھ مل کر کام کرتا رہے گا۔
پاکستان کے دورے پر آئی ہوئی عالمی مالیاتی فنڈ “آئی ایم ایف” کی مینیجنگ ڈائریکٹر کرسٹین لاگاردے نے بھی کوئٹہ میں پولیس کے تربیتی مرکز پر ہونے والے حملے کی مذمت کرتے ہوئے اسے افسوسناک قرار دیا۔