رواں ماہِ فروری کے آخری ہفتے تک افغان طالبان و امریکی انتظامیہ کے درمیان افغان مفاہمتی عمل کے مسودے پر دستخط کئے جانے کی مصدقہ اطلاعات نے بہت بڑی پیش رفت کی نوید سنائی ہے۔ افغان طالبان کے ذرائع نے بھی تصدیق کی ہے کہ”دونوں فریقین کے درمیان امن مسودہ پر دستخط کئے جانے پر امکان ہے، تاہم امریکا اگر عین وقت پر حالات خراب نہ کریں۔“امارات اسلامیہ کی جانب سے مسودے پر دستخط سے قبل عارضی جنگ بندی کئے جانے کی تادم تحریر مصدقہ اطلاعات نہیں، امارات اسلامیہ کا شروع سے موقف یہی رہا ہے کہ جب تک امریکا، معاہدے پر دستخط نہیں کرتا،اُس وقت تک مستقل جنگ بندی کا سوال پیدا نہیں ہوتا، تاہم ایسی اطلاعات ضرور سامنے آئی کہ افغان طالبان نے کچھ دن کے لئے جنگ بندی کی پیش کش ضرور کی۔
22فروری تا 29فروری کے ایام اہمیت کے حامل ہیں۔واضح رہے کہ افغان طالبان نے 2018کو عید الفطر کے موقع پر 17برس بعد پہلی مرتبہ عارضی جنگ بندی کی تھی، لیکن جنگ پسند عناصر نے اس عارضی سیز فائر سے نامناسب اٹھا کر امن کے قیام کو مشکل بنایا اور امارات اسلامیہ کا اعتماد مجروح کیا۔ اب تمام قیاس آرائیوں کو ایک جانب رکھ کر اس اَمر کو کامیاب بنانے کی کوشش کرنی چاہیے کہ افغانستان میں مستحکم قیام امن کے لئے بڑی پیش رفت سے خطے سے امریکا و نیٹو ممالک کی واپسی کا عمل شروع ہوجائے۔ عالمی طاقتوں کی جانب سے فروعی مفادات کے لئے ترقی پذیر ممالک میں پراکسی وار و جنگوں سے صرف غریب عوام کو ہی نقصان پہنچا ہے۔ معاہدے پر پیش رفت اس حوالے سے بھی اہمیت کی حامل قرار دی جا رہی ہے کیونکہ افغانستان میں 35برس تک جنگیں مسلط کرنے والوں کو اپنے مقاصد میں ناکامی کا سامنا ہی ہوا ہے۔
افغان مفاہمتی عمل میں امریکی افواج کے انخلا، بین الافغان مذاکرات کے ٹائم فریم سے افغانستان میں موجود دیگر اسٹیک ہولڈرز کو حکومت کے نظام و انصرام پر مشاورت کا موقع ملے گا اور افغان عوام کی امنگوں و خواہش کے مطابق طرز حکومت کا فیصلہ ممکن بنایا جاسکتا ہے۔ افغان طالبان نے اپنے اصولی موقف میں تبدیلی نہیں کی، بلکہ اُن غلط فہمہیوں کے ازالے کی کوشش ضرور کی، جو افغان طالبان کے خلاف ایک منظم پروپیگنڈے کے تحت دنیا بھر میں پھیلائی گئیں، خاص طور پر پاکستان کے حوالے منفی پروپیگنڈا سوچی سمجھی سازش کے تحت پھیلایا گیا کہ امریکا و کابل انتظامیہ کے خلاف افغانستان میں پاکستانی ریاست کی مدد شامل ہے، اس حکمت عملی کو اباسٹریجک غلطی تسلیم کیا جاچکا ہے کہ امریکی جنگ کا حصہ بننے کے بجائے غیر جانب دار کردار ادا کرنا چاہیے تھا، یہی وجہ ہے کہ حالیہ دور میں کئی مرتبہ ریاست پر دباؤ دالنے کی کوششیں ناکا م ہوئیں، جب پاکستان کو پڑوسی ممالک ایرا ن و چین کے خلاف استعمال ہونے کے لئے دباؤ بڑھایا گیا، تاہم ریاست نے تحمل و حکمت عملی سے مشرق وسطیٰ سمیت جنوبی ایشیا میں کسی ایسی جنگ میں شمولیت سے انکار کردیا، جو خطے میں مزید جنگ و تباہی کا سبب بنتا ہے۔
یہ ریاستی اداروں کی بڑی کامیابی رہی کہ انہوں نے پرائی جنگ کے شعلے ایک بار پھر اپنے ملک میں لانے کی تمام دباؤ کو رّد کیا۔ ریاستی اداروں نے اپنی تمام تر توجہ کابل انتظامیہ کے دوہرے معیار و بھارت کی دراندازیوں و سازشوں پر مرکوز رکھیں، جس بنا پر پاکستان میں شدت پسندی و انتہا پسندی کی بڑی کاروائیوں کا خاتمہ اور دہشت گردوں کے سہولت کاروں کی آزادنہ نقل وحرکت و مذموم سازشوں کو رچانے میں ناکامی کا سامنا ہے۔
افغان طالبان نے سوویت یونین اورا مریکا کے خلاف مسلح مزاحمت صرف اس لئے کی، کیونکہ ان کی سرزمین پر منفی پروپیگنڈوں و خودساختہ منصوبہ بندی کرکے جارحیت کی گئی، ان کی سرزمین پر جنگ مسلط کی، فروعی مفادات کے لئے غیور قوم کو اپنی تاریخی آبائی سرزمین سے بے دخل ہونے پر مجبور کیا، لاکھوں افغان عوام کو دنیا بھر میں ہجرت کرنی پڑی، پاکستان 40برس سے افغان مہاجرین کی میزبانی کررہا ہے، کرزئی یا غنی انتظامیہ کی جانب سے پاکستان کے خلاف بے بنیاد الزامات یا دشنام طرازیوں سمیت داخلی معالات میں مداخلت کے باوجود صبر و تحمل کا مظاہرہ کیا اور کئی بار افغان مہاجرین کے قیام میں توسیع کی، یہاں تک کہ افغان مہاجرین کے لئے دوہری شہریت دینے کا بھی عندیہ ظاہر کیا گیا کیونکہ اس وقت پاکستان میں افغان مہاجرین کی تیسری نسل پروان چڑھ رہی ہے اور نئی نسل پاکستان کو ہی اپنا وطن سمجھتی ہے۔
ٹرمپ نومبر میں صدارتی انتخابات سے قبل اپنے کئی انتخابی منشور پر عمل درآمد کو یقینی بنانے کے لئے امریکی عوام سے کئے وعدوں کو پورا کرکے، اپنی تمام تر متنازع شخصیت کے باوجود صدارت کے لئے دوسری مرتبہ دوبارہ طالع آزمائی کرنا چاہتے ہیں، اس کے لئے صدر ٹرمپ، انتخابی وعدوں کو پورا کرنے کے لئے پیش رفت کو اپنی فتح کے لئے استعمال کرنے میں سنجیدہ ہیں، تاہم وائٹ ہاؤس و پینٹاگون میں واضح اختلافات کے باعث کئی معاملات ہنوز حل طلب ہیں۔ صدر ٹرمپ میکسکو سرحد پر600کلو میٹر حفاظتی دیوار کو بنانے کے ساتھ افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا کے وعدے کو پورا کرنا ضروری سمجھتے ہیں، لیکن ان کی عجلت پسندانہ عادت و امریکی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ایک صفحے پر نہ ہونے کی وجہ سے کئی عالمی تنازعات کو حل کرنے میں مشکلات درپیش ہیں۔
29فروری تک افغان مفاہمتی عمل کے مسودے پر دستخط کے مرحلے کو اگر جنگ پسند قوتوں کی جانب سبوتاژ کرنے کی کوشش ناکام ہوئی تو یہ صدی کی سب سے بڑی خبر ہوگی۔ بین الافغان مذاکرات میں افغانستان کے تمام اسٹیک ہولڈرز ایک متفقہ نکتے پر اکھٹے ہوجائیں گے اور اس اَمر کی قوی امید ہے کہ افغانستان کے نظام و انصرام کا فیصلہ افغان عوام اپنی ثقافت و روایات کے مطابق کرلیا جائے گا۔ تاہم ہمیں اس غلط فہمی میں بھی نہیں رہنا چاہیے کہ امریکا کا افغان طالبان کے ساتھ معاہدہ ہوتے ہی امن قائم ہوجائے گا، یقینی طور پر افغانستان میں ایسے جنگجو و سیاسی گروپ بھی موجود ہیں، جو امارات اسلامیہ کے مخالف اور ان کے اپنے فروعی مفادات ہیں، امریکی و افغان طالبان کے درمیان معاہدہ انہیں قبول بھی نہ ہو، ان گروہوں میں بھارت کے پے رول پر کام کرنے والے جنگجو و سیاسی گروہ بھی ہیں جو پاکستان و افغانستان میں امن نہیں دیکھنا چاہتے، صوبائیت، نسل پرستی و فرقہ وارانہ اور لسانیت کی فضا کو پروان چڑھا نے کی سازشیں کرتے رہتے ہیں، لہذا اس موقع پر امریکی انتظامیہ بھی دور اندیشی سے کام لے اور افغان مفاہمتی عمل کو ایک بار پھر مُردہ کرنے کی عجلت کو نہ دوہرائے کیونکہ یہ خطے میں تمام ممالک کے حق میں بہتر ہے۔