گزشتہ دس ماہ سے امریکہ اور طالبان کے درمیان امن مذاکرات جاری تھے جو کہ مرحلہ وار کامیابی کی جانب بڑھ رہے تھے ، اور طالبان کیساتھ آئندہ مذاکرات کی تاریخ 23 ستمبر طے تھی۔ امن معاہدہ تحریر ہوچکا تھا ، اس کے مختلف زبانوں میں ترجمے ہوگئے تھے ، اس معاہدے کے بارے میں امریکی خصوصی ایلچی اورمذاکرات کارزلمے خلیل زاد افغان حکومت کواعتماد میں لے چکے تھے ،افغان طالبان اورافغان صدر اشرف غنی کی امریکی صدر ٹرمپ سے کیمپ ڈیوڈ میں ملاقات طے پاچکی تھی، طالبان امریکہ کے ساتھ ہونے والے ممکنہ” امن معاہدے ” کو اپنی فتح قرار دے رہے تھے اور ایسی اطلاعات تھیں کہ وہ معاہدے کے بعد افغانستان کے مختلف علاقوں میں جشن منانے کی تیاریاں بھی کر رہے تھے ۔ جس کے بعد صدرٹرمپ نے ٹویٹ کے ذریعے ملاقات کی منسوخی کااعلان کیا اوروجہ یہ بتائی کہ افغان طالبان نے کابل میں حملہ کرکے ایک امریکی اورگیارہ سویلینز کوہلاک کردیاہے اس لیے ملاقات منسوخ اورمذاکرات معطل کردیئے گئے ہیں۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ صدر ٹرمپ نے ایک امریکی فوجی کی ہلاکت پر غصے کا اظہار کیا، لیکن ہزاروں کی تعداد میں ہلاک ہونے والے افغان شہریوں، جن میں بچے اور خواتین بھی شامل ہیں، کی کسی نے کوئی پروا ہ نہیں کی۔ مذاکرات شروع ہونے کے بعدبھی کوئی دن ایسا نہیں گزرا جس میں دونوں فریقین میں لڑائی نہ ہوئی ہو، اس لئے مذاکرات معطل کرنے کایہ جواز محض ایک بہانہ ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے طالبان کے ساتھ امن مذاکرات منسوخ کرنے کے اعلان کے ساتھ چند سیکنڈز میں کیے گئے مسلسل تین ٹویٹس میں طالبان پر الزام لگایا کہ وہ اپنی سودے بازی کی پوزیشن کو مضبوط کرنے کے لیے لوگوں کو قتل کر رہے ہیں۔
ایک ٹویٹ میں امریکی صدر ٹرمپ نے کہا کہ طالبان مزید کتنی دہائیوں تک لڑنا چاہتے ہیں؟ جبکہ امریکہ اور طالبان کے درمیان مذاکرات کو قریب سے دیکھنے والے مبصرین امریکی صدر کی جانب سے پیش کیے جانے والے جواز کے قائل نہیں کہ صرف ایک امریکی فوجی کی ہلاکت پر انہوں نے طالبان کے ساتھ مذاکرات منسوخ کرنے کا اعلان کیا۔ مبصرین کے مطابق اس کے پیچھے امریکی سیاست میں متحرک وہ لابی ہو سکتی ہے جو امریکہ اور طالبان کے درمیان ہونے والے امن معاہدے کے خلاف ہے اور سمجھتی ہے کہ اس معاہدے کے بعد بھی افغانستان میں امن ممکن نہیں۔ جن کے نزدیک یہ معاہدہ طالبان کے سامنے گھٹنے ٹیکنے کے مترادف ہے ۔ جبکہ بعض تجزیہ کار امریکی صدر کی جانب سے مذاکرات منسوخی کے بیان کو محض دباؤ ڈالنے کا طریقہ سمجھتے ہیں، ان کے مطابق امن مذاکرات ختم نہیں ہوئے بلکہ ملتوی ہوئے ہیں۔ ان کے مطابق کوئی بھی جنگ، جنگ پر ختم نہیں ہوتی، مذاکرات پھر بھی ہوں گے اور مذاکرات کے ذریعے ہی امن آئے گا۔
نائن الیون کے بعد اسامہ بن لادن کی تلاش میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے افغانستان پرحملہ کردیاتھا اور ان کی خوش فہمی یہی تھی کہ افغانستان ایک ترنوالہ ثابت ہوگا اوربس چند مہینوں میں ہی افغانستان فتح کرلیاجائے گا اورجنوبی ایشیامیں افغانستان کی صورت میں امریکہ کو ایک مستقل ٹھکانہ مل جائے گا۔ لیکن جدیدترین اوربھاری بھرکم اسلحہ رکھنے اوراستعمال کرنے کے باوجود یہ جنگ رفتہ رفتہ امریکہ اورا س کے اتحادیوں کے ہاتھ سے نکلتی گئی اورافغان طالبان جن سے اقتدار چھینا گیا تھا، نے آہستہ آہستہ افغانستان کے علاقے واپس لینا شروع کردیئے ۔ جب افغانستان کے لیے امریکہ کے خصوصی نمائندے زلمے خلیل زاد کی سربراہی میں امریکی وفد نے قطر میں طالبان کے وفد کے ساتھ مذاکرات کا آغاز کیا تو امریکی ایلچی نے کہا تھا کہ طالبان کے ساتھ مذاکرات میں چار اہم نکات ہیں۔ 1۔ افغان سرزمین کی امریکہ اور ان کے اتحادیوں کے خلاف استعمال نہ ہونا،2۔ امریکی اور بین الاقوامی افواج کا انخلا، 3۔ افغان حکومت کے ساتھ بین الافغان مذاکرات،4۔ جنگ بندی۔تاہم کئی ماہ کے مذاکرات کے بعد ان چار میں سے صرف پہلے دو نکات پر ہی بحث ہوتی رہی، جبکہ آخری دو نکات کو بین الافغان مذاکرات کے لیے چھوڑ دیا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ طالبان آج بھی اپنے اس موقف پر ڈٹے ہوئے ہیں کہ وہ افغان حکومت کے ساتھ حکومت کی حیثیت سے مذاکرات نہیں کریں گے اور ان کے بقول سیزفائر پر بین الافغان مذاکرات میں ہی بحث ہو گی۔ طالبان کے ساتھ امن مذاکرات کی منسوخی سے سب سے زیادہ فائدہ افغان حکومت کو بظاہر اس لیے ہو رہا ہے کہ اُن کی اور امریکہ کی ترجیحات میں واضح فرق ہے۔
امریکہ کی پہلی ترجیح امن معاہدہ، جبکہ افغان حکومت کی پہلی ترجیح آنے والے صدارتی انتخابات رہے۔واضح رہے کہ افغان صدر اشرف غنی کی حکومت کی آئینی مدت 22مئی کو ختم ہوئی تھی لیکن سپریم کورٹ نے انہیں ستمبر کے صدارتی انتخابات تک حکومت میں رہنے کی اجازت دی تھی۔ افغانستان میں امن کی خاطر طالبان سے جاری مذاکرات کا عین اس وقت منسوخ کرنا جب طویل بات چیت کے صبر آزما مراحل کے بعد معاہدے پر دستخط ہونے والے تھے ، دنیا کے ہر امن پسند شہری کیلئے سخت فکرمندی کا باعث ہے ۔ امریکہ اور طالبان کے درمیان جاری مذاکرات میں امن معاہدے پر دستخط کے فوراً بعد بین الافغان مذاکرات شروع ہونا تھے ، جن میں جنگ بندی، افغانستان کے مستقبل کے سیاسی نظام، آئینی ترمیم، حکومتی شراکت داری اور طالبان جنگجوؤں کے مستقبل سمیت کئی مسائل پر بات چیت شامل تھی۔ بلاشبہ امریکہ، طالبان اور خطے کے عوام سب کا مفاد افغانستان میں پائیدار امن کے قیام ہی سے وابستہ ہے لہٰذا تمام فریقوں کو تحمل و ہوشمندی سے کام لیتے ہوئے مذاکرات کی جلدازجلد بحالی کو یقینی بنانا چاہئے تاکہ خطے میں پائیدار امن ممکن ہو سکے۔