تحریر : چوہدری ذوالقرنین ہندل۔گوجرانوالہ یہ واقعی ایک حقیقت ہے کہ پاکستان کا امن افغانستان کے امن سے جڑا ہوا ہے۔خطے میں اس وقت تک امن کی فضاء کو قائم نہیں رکھا جا سکتا جب تک افغانستان امن کی خاطر تہہ دل سے اقدامات نہ کرے۔دونوں ملک 2640 کلو میٹر کی لمبی سرحد سے دوطرفہ تجارت کرتے ہیں۔اس سرحد کو ڈیورنڈ لائن کہتے ہیں۔اس سے بھی بڑھ کر اس سرحد کے آر پار رہنے والے ایک ہی زبان بولتے ہیں بلکہ ایک دوسرے کے رشتہ دار بھی ہیں ایک ہی مذہب ایک ہی ثقافت بلکل ایک جیسے لوگ۔پاکستان اور افغانستان براعظم ایشیاء کے دو اسلامی ملک ہیں۔جغرافیائی لحاظ سے دونوں اہمیت کے حامل ہیں۔
قدرتی وسائل سے مالا مال بھی ہیں۔یہی وجہ ہے کہ امریکہ ان ممالک پر اپنا پورا اثر رسوخ چاہتا ہے۔امریکہ اور روس کی لڑائی کے لئے امریکہ نے بڑی مکاری کے ساتھ دونوں ملکوں کا استعمال کیا اور براستہ پاکستان افغانستان پر جنگ مسلط کر دی۔اسی جنگ کے دوران افغانستان سے لاکھوں پناہ گزین پاکستان آئے ۔پاکستانیوں نے انہیں مسلمان بھائی سمجھ کر خوشی سے تسلیم کیا۔پاکستان اور افغانستان کے تعلقات بھی قدرے بہتر تھے۔وقت گزرا روس کو شکست ہوئی سویت یونین کے ٹکڑے ہوئے امریکہ سپر پاور بن کر ابھرا۔آہستہ آہستہ امریکہ نے دونوں ملکوں سے اپنی امداد روک لی اور دونوں بارے اپنی سٹریٹیجی بھی بدلی صرف فوجی و جنگی مداخلت جاری رکھی۔اسی دوران امریکہ کبھی پاکستان میں دہشتگردی کی آڑ میں بم برساتا اور کبھی افغانستان میں دونوں ملکوں کے حالات بدتر ہوتے گئے۔نوبت یہاں تک پہنچی کے دونوں ایک دوسرے پر الزام تراشی پر اتر آئے۔اس بدلتی کیفیت میں بھارت نے افغانستان پر سرمایہ کاری شروع کی اور افغانستان پر اپنا اثر رسوخ قائم کیا۔
افغان حکومت بھارتی زبان بولنے لگی۔قائد کا پاکستان جو امن و آشتی کے لئے اسلام کے نام پر قائم ہوا۔وہی ملک افراتفری کا شکار ہونے لگا۔امن کی دھجیاں بکھرنے لگیں۔محبتوں کو قدروں کو پامال کیا گیا۔بیک وقت پاکستان کے متعدد دشمن پیدا ہوگئے۔جن میں افغانستان اور امریکہ دشمنوں کے سہولت کار رہے۔وقت گزرا پاکستان نے اپنی غلطیوں کو جانچا اور اپنی سالمیت کو مضبوط کیا۔دشمنوں کے خلاف جنگ لڑی اور کامیاب رہے امریکی ڈرون کا پاکستان میں گرنا بھی بند ہوگیا۔لیکن افغان حکومت بھارتی بین سنتی رہی اور اپنی بربادی کا سودا کرتی رہی۔پاکستان ایک محفوظ ملک بنا اور چائنہ پاکستان اکنامک کوریڈور جیسا بڑا منصوبہ سامنے آیا اور اس پر کام جاری و ساری ہے۔یہ ایک ایسا منصوبہ ہے جس سے اس خطے کی صورتحال یکسر بدل جائے گی۔یہ خطہ ایک معاشی خطہ بن کر ابھرے گا۔
آج پاکستان پھر ایک مثبت سمت پر گامزن ہے اور دنیا اس کا اعتراف بھی کر چکی ہے اسی لئے پاکستان چائنہ اکنامک کوریڈور میں پچاس سے زائد ممالک شامل ہونے کی خواہش کا اظہار کرچکے ہیں۔افغانستان بھی براہ راست اس راہداری کا حصہ ہے۔شاید افغانستان کو اس بات کی خبر نہیں کہ وہ کس قدر خوش قسمت ملک ہے کہ وہ براہ راست اس بڑے اقتصادی منصوبے کا حصہ ہے۔اگر اس کی قدر و قیمت کا اندازہ ہوتا تو بھارتی شہہ پر براستہ افغانستان پاکستان میں دہشتگردی کر کے سی پیک کو ناکام بنانے کی سازشیں نہ کی جاتیں۔گزشتہ روز افغانستان کی طرف سے دہشتگردوں نے پاکستانی چوکی پر پھر حملہ کیا۔افغانستان سے در اندازی کا سلسلہ تشویش ناک صورتحال اختیار کر گیا ہے۔ان حملوں میں ملوث تنظیموں اور سہولت کاروں کے ٹھکانے افغانستان میں پاکستانی سرحد کے قریب ہیں۔پاکستان بار بار افغانستان کو دہشتگردوں کے ٹھکانے تباہ کرنے کا کہہ چکا ہے مگر خاطر خواہ اقدام نہیں کئے جا رہے۔یا تو یہ افغان حکومتی شہ پر ہورہا ہے یا افغان فورسز دہشتگردوں سے کمزور ہیں۔بر حال افغان حکومت کو پاکستانی تعاون سے ان دہشتگردوں کے خاتمے کے لئے کام کرنا چاہئے تا کہ دونوں ممالک کا امن اور تجارت بحال ہو سکے۔
Terrorism
پاکستان نے تو ماضی کی غلطیوں کو پہچان کر اپنا آج اور مستقبل سنوار لیا ہے۔اب افغان حکومت کے پاس بھی موقع ہے کہ وہ دوبارہ اپنی بہتری اور امن امان کے بارے میں سوچے نہ کہ بھارتی گود میں کھیلتے کھیلتے خود کو دہشتگردی کی آڑ میں جلاتا رہے۔کتنے افسوس کی بات ہے کہ افغانستان ایک مسلم ہمسایہ اور خیرخواہ پاکستان کو مخالف اور ایک غیر مسلم مکار انتہا پسند اور دشمن ملک بھارت کو اپنا دوست تصور کرتا ہے۔افغانستان کے پاس ابھی بھی وقت ہے کہ بدلتی صورتحال سے آشنا ہو جائے اور خود کو امن اور ترقی کی راہ پر گامزن کر لے نہ کہ امریکی و بھارتی سہولت کار بن کے دہشتگردی کی آگ میں جلتا رہے۔پاکستان کا کیا ہے پاکستان تو پاک افغان سرحد بند بھی کر سکتا ہے اور اس پر آمدورفت کو کنٹرول بھی کرسکتا ہے جس پر کام بھی جاری ہے۔
ماضی میں دونوں طرف سے غلطیاں سرزد ہوئیں لیکن اب غلطیاں دہرانے کا دور ختم ہوا دونوں ملکوں کو نئی دوستی بھائی چارے اور ولولے کے ساتھ امن و ترقی کی راہ کو چننا چاہئے۔کیونکہ دونوں ممالک میں امن سے ہی خطے میں امن ہوگا۔دونوں وطنوں کا امن بھی ایک دوسرے کے امن سے منسلک ہے۔اگر افغانستان نے بھارتی گود نہ چھوڑی تو ایک دن پھر افغانستان دوسرے ملکوں وریاستوں سے صدیاں پیچھے ہوگااور اس کے پاس سوائے پچھتاوے کے کچھ نہ ہوگا۔پاکستان کی طرف سے بھی خاطر خواہ اقتدامات ہونے چاہئے ایسا نہ ہو کہ بھارت براستہ افغانستان ہمارے امن کوششوں کو تار تار کرنے کی تگ و دو کرتا رہے۔پاکستان کو فی الفور افغانستان کے ساتھ اپنے تعلقات بہتر طریقے سے طے کرنے چاہئیے۔یہ بھی وقت کی ضرورت ہے۔پاک افغان امن سے بہت سے دشمنوں کو بیک وقت شکست ہوگی۔پاکستانی حکومت کو افغانستان کے ساتھ مذاکرات کے ذریعے دہشتگردی کے خاتمے اور اقتصادی ترقی کی اہمیت بارے آگاہ کرنا چاہئے۔