صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے افغان امن معاہدے پر خیر مقدمی پیغام کے ساتھ ہی انتباہ جاری کرتے ہوئے کہا کہ اگر افغان طالبان نے پاسداری نہیں کی تو معاہدہ منسوخ بھی کیا جاسکتا ہے۔امریکی صدر نے افغان طالبان کی قیادت سے جلد ملاقات کا عندیہ بھی دیا۔افغان طالبان اور امریکا کے درمیان امن معاہدہ کا مشترکہ اعلامیہ جب جاری کیا گیا تو اعلامیہ پر امریکا کے قومی نشان کے ساتھ افغانستان کا قومی نشان (National emblem) سر فہرست تھا۔ معاہدے کے دستخط کشید لائن کے نیچے افغان طالبان کا نام امارات اسلامیہ افغانستان کے بجائے ملا عبدالغنی بردار کو ڈپٹی افغان طالبان لکھا گیا،امریکا نے معاہدے و اعلامیہ میں واضح طور پر امارات اسلامیہ افغانستان کے نام کو تسلیم کرنے سے گریز کیا۔ اس عمل کو افغان حکومت کے اُس تناظر میں دیکھا جاسکتا ہے، جب قطر میں سیاسی دفتر کی افتتاحی تقریب کے موقع پر عمارت پر امارات اسلامیہ افغانستان نام اور جموریہ افغانستان کے پرچم کے بجائے امارات افغان طالبان کا پرچم لہرا رہا تھا۔ افغان حکومت نے فوراََ اعتراض کیا اور واپس لوٹ گئے، قطر آفس کھلتے ہی بند ہوگیا۔یقینی طور پر افغان طالبان نے اس جیسے کئی معاملات میں لچک کا مظاہرہ کیا جو قابل تحسین ہے۔
دوحہ امن معاہدے میں غنی انتظامیہ نے بھی چھ رکنی وفد دوحہ بھیجا، لیکن افغان طالبان کے اعتراض پر انہیں تقریب میں شرکت کرنے سے روک دیا گیا، تاہم عین اُس وقت اشرف غنی نے پریس کانفرنس کی جب دوحہ میں دونوں فریقین دستخط کرنے جارہے تھے، عالمی ذرائع ابلاغ نے تینوں فریقین کو براہ راست کوریج دی۔ افغان امن معاہدے کے حوالے سے اب بھی کئی اہم معاملات پس منظر میں ہیں، ممکن ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ سامنے آنا شروع ہوجائیں۔ افغان طالبان اور امریکا کے درمیان، پاکستان نے اہم کلیدی کردار ادا کیا، اس کا اعتراف امریکا سمیت پوری دنیا نے کیا۔ لیکن پاکستان نے بار بار اس اَمر کی وضاحت بھی کی کہ پاکستان کا کردار امن معاہدے کو ممکن بنانے تک تھا اس کے بعد افغان رہنماؤں کو افغانستان کے مستقبل کی ذمے داری خود اٹھانا ہوگی۔ بین الافغان مذاکرات کوامریکا کے ساتھ معاہدے سے زیادہ پیچیدہ قرار دیا جارہا ہے۔ کیونکہ بین الافغان مذاکراتی عمل، پائدار و مستقل امن کو آگے بڑھانے کے ساتھ افغانستان کی تعمیر نو کے لئے اہم کردار کا حامل ہے۔
توقعات ہیں کہ صدر ٹرمپ افغان طالبان کی قیادت سے بین الافغان مذاکراتی عمل شروع ہونے کے بعد ہی ملاقات کریں۔تاہم صدر ٹرمپ و امریکی حکام سمیت غنی انتظامیہ کے دھمکی آمیز بیانات سازگار ماحول کے لئے مناسب قرار نہیں دیئے جا رہے۔ شاید اس قسم کے بیانات دینے سے وہ اپنے سبکی و شرمندگی کو امریکی عوام سے چھپانے کی کوشش کررہے ہوں، تاہم اس بات کا کریڈٹ یقیناََ صدر ٹرمپ کو دیا جاسکتا ہے کہ امریکی اسٹیبلشمنٹ کی تمام تر مخالفت کے باوجود افغانستان سے تمام غیر ملکی فوجی، کنٹریکٹر ایجنسیوں کے انخلا کو یقینی بنانے کے بالاآخر انہوں نے فیصلہ کیا۔ امن معاہدے میں صدر ٹرمپ کے سیاسی کردار کو بھی سمجھنے کی ضرورت ہے، کیونکہ انہیں امریکی عوام کو اس اَمر کا یقین بھی دلانا ہے کہ وہ امریکیوں کی حفاظت کے لئے”سنجیدہ“ ہیں۔ بظاہر انہوں نے امریکی تاریخ کی طویل ترین جنگ کے خاتمے کا آغاز کردیا ہے، تاہم یہ سوالات امریکی عوام کے ذہن میں بھی اٹھ رہے ہوں گے کہ اس امن معاہدے کی ضمانت کن کن ممالک نے فراہم کی۔ اگر ان 14ماہ کے دوران کہیں ڈیڈ لاک پیدا ہوا تو اُسے کون اور کس طرح دور کرے گا؟۔
چین، امریکا تعلقات کشیدہ ہیں، تجارتی جنگ کے بعد کرونا وائرس کے حوالے سے”بائیولوجیکل حملہ“کی باز گشت ہے۔ چینی سائنسدانوں کے مبینہ خدشے کی تائید روسی سائنس داں بھی کررہے ہیں اور ووھان شہر کو بائیو لوجیکل حملے کے لئے آئیڈیل قرار دینے کی کئی اہم وجوہات سامنے بتائی گئیں۔ گو کہ اس وقت 178ممالک میں سے50ممالک کرونا وائرس سے متاثر ہوئے ہیں لیکن سب سے زیادہ نقصان چین اور ایران کو ہوا، نائن الیون کے بعد ائیر لائن انڈسٹری کو30ارب ڈالرز کا نقصان پہنچ چکا،جبکہ2002میں 19.6ارب ڈالر کا خسارہ ہوا تھا۔ عالمی معیشت کا خسارہ علاوہ ہے، ایران و امریکا کے درمیان جنگ و انتہائی کشیدہ ماحول ہے، دونوں ممالک ایک دوسرے کو شدید نقصان پہنچانے کی دھمکی دیتے رہتے ہیں، کیا جنگ کے دہانے پر دونوں ممالک کسی دوسرے کے لئے امن کی ضمانت دینے پر اتفاق رکھتے ہیں، اگر ایسا ہے تو عجیب سا لگتا ہے کہ خود تو جنگ کی آگ میں جھلس رہے ہوں اور دوسری طرف جنگ کے خاتمے کے لئے ضمانت دیں اور لیں۔ روس اور امریکا کے تعلقات خراب سے خراب ہوتے جارہے ہیں، خاص کر ترکی مسلح افواج پر روسی حملے کے بعد امریکی مفادات کو ترکی اور روس سے خطرات لاحق ہیں، ان حالات میں روس کے کردار کو بھی سمجھنا ہوگا۔
سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات، ماضی میں افغان طالبان کے حامیوں میں سے تھے، لیکن سعودیہ کاامریکا پر بڑھتا انحصاراورقدامت پسندی سے جدیدیت کے سفر میں افغان طالبان سے دوریاں رہیں، افغان طالبان سے عرب ممالک کی ناراضگی کی دو بنیادی وجوہات ہیں، جس میں افغان طالبان کاعرب ممالک کے مطالبے پر جنگ بندی سے انکار اور دوسری جانب ایران سے بڑھتے تعلقات ہیں، قطر کے دیگر عرب ممالک سے تعلقات بھی خوشگوار نہیں۔ مختصراََ یہ ہے کہ امن معاہدے کے حتمی ہونے تک اہم ممالک کے کلیدی کرداروں میں پاکستان و بھارت ہی رہ جاتے ہیں، تاہم ان کے درمیان افغانستان میں مفادات کا ٹکراؤ ہے۔ پاکستان نے امن معاہدے کا کریڈٹ لیا، جو اُس کا حق بنتا ہے اور بھارت بظاہر خاموش تماشائی بنا ہوا ہے، ان حالات میں بھارت و پاکستان کو کیا یقین دہانیاں کرائی گئی، اس کا علم بھی وقت کے ساتھ ہوگا۔
افغانستان کی سرزمین دہشت گردی کے لئے استعمال نہیں ہوگی، معاہدے میں کسی تنظیم کا نام نہیں لکھا ہوا، اس کا واضح مطلب ہے کہ پاکستان کے خلاف بھی افغان سرزمین پر موجود دہشت گرد تنظیموں کے کاروائیاں ختم کرنے کی یقین دہانی،کابل انتظامیہ و بھارت سے لی گئی ہوگی۔ اسی طر ح اب افغان طالبان کے پاس ایسی کالعدم تنظیموں کے خلاف کاروائی کا مینڈیٹ ہے، جس میں داعش، القاعدہ کے ساتھ ساتھ دیگر شدت پسندوں کے نیٹ ورک اپنے سرزمین سے ختم کرنا ہوں گے۔ بین الافغان مذاکرات میں پس پردہ وہ عناصر افغانستان کے مستقبل کے فیصلے میں اپنے اپنے مفادات کا تحفظ بھی چاہیں گے۔ کیونکہ افغان طالبان کی مزاحمت میں کئی اہم ممالک کا براہ راست عمل دخل بھی تھا، لہذافغانستان کے مستقبل کے ڈھانچے میں کیسے کیا اور کتنا حصہ ملتا ہے، یہ اہمیت کا حامل ہے۔امریکا کے لئے ضروری ہے کہ خطے میں اپنی عسکری موجودگی کے بجائے سیاسی موجودگی کو مثبت بنانے پر ترجیح دے تو یہ خود اُس کے لئے بہتر ہوگا، اافغانستان کے داخلی معاملات میں مداخلت نہ کرنے کے معاہدے پر عمل درآمد کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنا دھمکی آمیز رویہ اور ڈکٹیشن دینا ختم کردے تو یہ امن کے حق میں بہتر ہو گا۔