کابل (جیوڈیسک) شدت پسندی کا شکار افغانستان کے حوالے سے جاری حالیہ رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ طالبان شدت پسندوں کے زیر قبضہ ایک علاقے میں غذائی قلت اس خوفناک حد تک پہنچ گئی ہے کہ محصور عوام گھاس کھانے پر مجبور ہو گئے ہیں۔
انٹرنیشنل کرائسس گروپ(آئی سی جی) کے مطابق امریکا کی زیر قیادت افواج کے انخلا کے ساتھ ہی قبائلیوں جھگڑوں میں اضافہ ہونا شروع ہو گیا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ حکومتی فوجی اہلکار بھی لڑ رہے ہیں جبکہ افغان پولیس اور فوج کی جانب لوگوں سے خراب رویہ روا رکھنے کی اطلاعات بھی سامنے آئی ہیں۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ پڑوسی ملک پاکستان اپنے ہاں طالبان قیادت کی محفوظ پناہ گاہوں پر کریک ڈاؤن میں ناکام رہا ہے جہاں سے وہ شدت پسندی کی ہدایات جاری کرتے ہیں۔
آئی سی جی نے اپنی رپورٹ میں تفصیل بیان کرتے ہوئے کہا کہ جنوبی صوبے قندھار کے گاؤں گھورک کا طالبان شدت پسندوں نے مہینوں سے محاصرہ کر رکھا ہے جس کے باعث وہاں خوراک کی شدید قلت ہو گئی ہے۔ ضلع گھورک کے وسط پر ابھی تک حکومتی کنٹرول برقرار ہے لیکن طالبان کی جانب سے روڈ بلاک کیے جانے کے باعث اشیائے خورونوش کی سپلائی رک گئی ہے۔
گزشتہ ماہ کیے گئے انٹرویو میں ایک شخص نے ٹیلیفون پر گفتگو میں بتایا تھا کہ حکومتی حمایت یافتہ محصور علاقے میں لوگ گھاس کو ابال کر کھانے پر مجبور ہیں۔ کابل میں موجود آئی سی جی کے تجزیہ نگار گریم اسمتھ نے اے ایف پی کو بتایا۔
کہ ہم یہاں کے رہائشیوں سے گزشتہ چند سالوں سے بات کرتے آ رہے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ان افراد کو گزشتہ سال بھی اشیائے خورونوش کی سپلائی میں مشکلات کا سامنا تھا۔ گھاس کھانے کے واقعے کے اندازہ ہوتا ہے کہ انہیں سپلائی لائن بند ہونے اور محصور ہونے کے باعث کس حد تک مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔