کابل (اصل میڈیا ڈیسک) افغانستان میں کئی ماہ سے جاری سیاسی بحران ختم ہو گیا ہے۔ مارچ میں ملکی صدر کے طور پر علیحدہ علیحدہ حلف اٹھانے والے دونوں حریف سیاستدانوں اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ نے شراکت اقتدار کے ایک معاہدے پر دستخط کر دیے ہیں۔
افغان صدر اشرف غنی، دائیں، اور ان کے سیاسی حریف عبداللہ عبداللہ شراکت اقتدار کے معاہدے پر دستخطوں کے وقت کابل میں
کابل سے موصولہ رپورٹوں کے مطابق ہندو کش کی ریاست افغانستان کو گزشتہ کئی مہینوں سے جس شدید سیاسی بحران کا سامنا تھا، وہ اب صدر اشرف غنی اور ملک کے سابق چیف ایگزیکٹیو عبداللہ عبداللہ کے مابین اقتدار میں شراکت داری کے ایک باقاعدہ معاہدے پر دستخطوں کے ساتھ اپنے اختتام کو پہنچ گیا ہے۔
افغان صدر غنی کے ترجمان صدیق صدیقی کی طرف سے ٹوئٹر پر جاری کردہ ایک پیغام میں کہا گیا کہ اب عبداللہ عبداللہ اعلیٰ قومی مصالحتی کونسل کے سربراہ ہوں گے جبکہ ان کی سیاسی ٹیم کے متعدد ارکان کو ملکی کابینہ میں بھی شامل کر لیا جائے گا۔ صدیق صدیقی کے مطابق اقتدار میں شراکت کے اس معاہدے پر آج اتوار سترہ مئی کو دستخط کر دیے گئے۔
عشروں سے خانہ جنگی کے شکار ملک افغانستان میں اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ کئی برسوں سے ایک دوسرے کے بڑے سیاسی حریف ہیں۔ گزشتہ برس موسم خزاں میں ہونے والے ملکی صدارتی انتخابات کے جو نتائج کئی ماہ بعد جاری کیے گئے تھے، ان کے بعد ان دونوں ہی حریف امیدواروں نے اپنی اپنی انتخابی کامیابی کے دعوے کر دیے تھے۔
پھر دو ماہ قبل مارچ کے مہینے میں دو مختلف تقاریب میں ان دونوں نے ہی نئے ملکی صدر کے طور پر اپنے اپنے عہدے کا حلف بھی اٹھا لیا تھا، جس سے ملک میں ایک سیاسی اور آئینی بحران پیدا ہو گیا تھا۔
اسی دوران عبداللہ عبداللہ کے ایک ترجمان نے کہا ہے کہ ماضی میں ملکی چیف ایگزیکٹیو رہنے والے عبداللہ کی سیاسی جماعت کو نئی ملکی انتظامیہ میں 50 فیصد حصہ ملے گا۔ ان میں افغان حکومتی وزارتیں بھی شامل ہوں گی اور قومی کے علاوہ صوبائی سطح تک پر کام کرنے والے خود مختار او غیر جانبدار ڈائریکٹوریٹس کے سربراہان کے عہدے بھی۔
ڈاکٹر اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ نے آج جس دستاویز پر دستخط کیے، اس کی بہت سی تفصیلات ابھی جاری نہیں کی گئیں۔ تاہم یہ بات طے ہے کہ عبداللہ عبداللہ اس اعلیٰ قومی مصالحتی کونسل کے قیادت کریں گے، جس کے فرائض میں سے اہم ترین طالبان عسکریت پسندوں کے ساتھ کامیاب مذاکرات کے ذریعے ملک میں قیام امن کو یقینی بنانا ہے۔ اب تک یہ بھی واضح نہیں کہ عبداللہ عبداللہ کے سیاسی دھڑے کو ملکی کابینہ میں کون کون سے وزارتیں دی جائیں گی۔