کابل (اصل میڈیا ڈیسک) افغانستان کے صدر اشرف غنی نے مسلح افواج کو حکم دیا ہے کہ وہ ملک میں جاری تشدد کے خاتمے اور دہشت گردی کی روک تھام کے لیے دفاعی صورت حال سے نکل کر اقدامی کارروائی شروع کرے اور کسی کے ساتھ کوئی رعایت نہ برتی جائے۔ افغان صدر کی طرف سے طالبان اور دوسرے دہشت گرد گروپوں کے خلاف بھرپور کارروائی کے احکامات ایک ایسے وقت میں دیئے گئے ہیں جب دوسری جانب امریکا افغان حکومت اور طالبان کے درمیان مفاہمت کی کوششیں کر رہا ہے۔
ایک ٹی وی چینل پر نشر بیان میں صدر اشرف غنی نے کہا کہ عوامی مقامات پر امن وامان کا قیام، حملوں کو روکنا، طالبان اور دوسرے دہشت گرد گروپوں کی طرف سے دھمکیوں کا جواب دینا مسلح افواج کی ذمہ داری ہے۔ سیکیورٹی اداروں کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ دفاعی پوزیشن سے نکل کر اقدامی کارروائی کا آغاز کریں اور دشمن کو سبق سکھائیں۔
خیال رہے کہ افغان صدر کی طرف سے فوج کو دہشت گردوں کے خلاف سخت کارروائی کی ہدایت ایک ایسے وقت میں دی گئی ہے جب دوسری جانب دارالحکومت کابل میں تشدد کے تازہ واقعات رونما ہوئے ہیں۔ ایک مسلح گروپ نے کابل اسپتال پرحملہ کرکے کم سے کم 16 افراد کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ ملک کے مشرقی علاقے میں ایک جنازے میں ہونے والے خود کش دھماکے میں کم سے کم 20 افراد مارے گئے ہیں۔
افغان صوبے ننگرہار میں پیش آنے والے دہشت گردی کے اس واقعے کی ذمہ داری کسی گروپ نے قبول نہیں کی ہے تاہم صدر اشرف غنی نے تشدد کے تازہ واقعات میں طالبان اور ‘داعش’ کو ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔
انہوں نے کہا کہ کابل اسپتال اور ننگرہار میں جنازے کے جلوس پر حملوں میں طالبان اور ‘داعش’ تنظیم کے دہشت گردوں کا ہاتھ ہے۔
واضح رہے کہ ایک ماہ قبل افغان فوج کو طالبان کے خلاف جنگ میں اقدامی پوزیشن اختیار کرنے سے روک کرصرف دفاعی پوزیشن پرلڑنے کی ہدایت کی گئی تھی۔ اس تبدیلی کا مقصد طالبان کے ساتھ مذاکرات کے لیے اعتماد سازی کے اقدامات کرنا تھا۔