خیبر پختونخوا (جیوڈیسک) پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا میں افغان پناہ گزینوں کو ہراساں کرنے کی شکایات کے بعد اب افغان پناہ گزینوں سے کہا گیا ہے کہ وہ پولیس کے خلاف اپنی شکایات انسپکٹر جنرل پولیس کو پہنچا سکتے ہیں۔
افغان پناہ گزینوں کی شکایت پر کیا کارروائی کی جائے گی اس کا فیصلہ بعد میں کیا جائے گا۔
جمعرات کو خیبر پختونخوا کے انسپکٹر جنرل پولیس ناصر درانی کی جانب سے ایک اخباری اشتہار دیا گیا ہے جس میں افغان پناہ گزینوں سے کہا گیا ہے کہ وہ پولیس کے خلاف شکایات درج کروانے کے لیے اشتہار میں دے گئے نمبر پر رابطہ کریں۔
گذشتہ دنوں افغان پناہ گزینوں کے ایک وفد نے پاکستان تحریک انصاف کے رہنما رستم شاہ مہمند کی سربراہی میں جماعت کے سربراہ عمران خان سے ملاقات کی تھی جس میں انھوں نے افغان پناہ گزینوں کو پولیس کے ہاتھوں درپیش مسائل سے آگاہ کیا تھا۔
اس ملاقات کے بعد عمران خان نے کہا تھا کہ افغان پناہ گزینوں کو تنگ نہ کیا جائے۔
پی ٹی آئی کے رہنما اور سابق سفارتکار رستم شاہ مہمند نے بتایا کہ افغان پناہ گزین جب تک یہاں رہنا چاہیں رہ سکتے ہیں اور بین الااقوامی معاہدوں کے تحت انھیں زبردستی کوئی نکال نہیں سکتا۔
فغان پناہ گزینوں سے کہا گیا ہے کہ وہ پولیس کے خلاف شکایات درج کروانے کے لیے اشتہار میں دے گئے نمبر پر رابطہ کریں
ان کا کہنا تھا کہ وہ اس پر بھی یقین نہیں رکھتے ہیں مہاجریں رجسٹرڈ ہیں یا غیر رجسٹرڈ کیونکہ ان کی اندراج کی ذمہ داری حکومت کی ہے اگر انھوں نے ان کا اندراج نہیں کیا اس میں پناہ گزّینوں کا کوئی قصور نہیں ہے۔
رستم شاہ مہمند نے بتایا کہ ڈپٹی انسپکٹر جنرل پولیس اور سپشل برانچ کی سطح پر کمیٹی قائم کی گئی ہے جس میں افغان پناہ گزینوں کے نمائندے شامل ہیں اور وہ پولیس کے بارے میں شکایات سننے اور انھیں حل کرنے کے لیے اقدامات تجویز کریں گے۔
خیبر پختونخوا میں چند ماہ سے افغان پناہ گزینوں کے خلاف بڑی کارروائیاں کی گئی ہیں اور اب تک چھ ہزار سے زیادہ ایسے افغان پناہ گزینوں کو پولیس نے گرفتار کیا ہے جن کے پاس یہاں رہنے کے دستاویزات نہیں تھے۔
اس کے علاوہ افغان پناہ گزینوں نے یہ شکایات بھی کی ہیں کہ پشاور کے حیات آباد بورڈ، دانش آبار اور شہر کے علاقوں میں پولیس انھیں ہراساں کرتی ہے اور کچھ اہلکار پیسے لے کر پھر انھیں چھوڑ دیتے تھے۔
دوسری جانب پولیس حکام اس وقت اس بے یقینی کا شکار ہیں کہ وہ پناہ گزین جن کے پاس دستاویزات نہیں ہیں اُن کے ساتھ کیا کارروائی کی جائے۔