تحریر : قادر خان یوسف زئی پاکستان میں موجود افغان مہاجرین کی واپسی پر پاکستانی عوام کی نظریں جمی ہوئی ہیں۔ پاکستان نے تقریباََ چالیس برس ان افغان مہاجرین کی میزبانی میں گذار دیئے ہیں اور اس کے نتیجے میں پاکستان کو آٹے میںنمک کے برابر بھی مالی امداد نہیں ملتی۔ پاکستان کئی برسوں سے افغانستان کی اپیلوں پر بار بار افغان مہاجرین کی واپسی میں توسیع کررہا ہے ۔ پاکستان اپنی تحمل مزاجی کی وجہ سے نہیں چاہتا کہ افغان مہاجرین کی واپسی میں کوئی ایسا امر مانع آجائے کہ چار عشروں کی قربانیاں رائیگاں چلی جائیں ۔ افغان مہاجرین کی با عزت واپسی پاکستان کے لئے مقدم ہے حالاں کہ پاکستان کو ان مہاجرین کی میزبانی کے عوض عالمی برادری سے ستائش و امداد کم ہی ملی ہے۔ پاکستان میں رہنے والے افغان مہاجرین کی تعداد لاکھوں میں ہے ۔ پاکستان کے طول و عرض میں افغان مہاجرین بس رہے ہیں اور ان کی تیسری نسل جوان ہو رہی ہے ۔ اس نسل نے اپنے آبا کی سرزمین کو دیکھا بھی نہیں ہے لیکن بود و باش میں اب پاکستانیت کا رنگ چڑھ گیا ہے کیونکہ افغان مہاجرین کیمپوں سے زیادہ پاکستان کے شہری و کاروباری علاقوں میں پُر آسائش زندگی بسر کررہے ہیں۔ انہوں نے کسی طرح پاکستانی دستاویزات بھی حاصل کرلی ہیں اور اب اُن کی آمد کے بعد جائزہ لیں تو اندازہ ہوگا کہ پاکستان کے بڑے شہروں میں اربوں روپوں کے سرمایہ میں افغان مہاجرین کا بڑا حصہ ہے۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ افغان مہاجرین کے پاس کاروبار کے لئے اربوں روپے کہاں سے آئے ؟۔ کیونکہ جب یہ افغانستان سے بے سروسامان ایران ، پاکستان ،وسط ایشیا ممالک اور یورپ گئے تو اپنے ساتھ یہ سونے کی کانیں نہیں لائے تھے۔
چند کپڑوں میں معصوم بچوں ،بزرگوں اور خواتین کے ساتھ اس حالت میں اپنے بزرگوں کی سرزمین چھوڑی تھی کہ ان کے پاس کھانے کیلئے دو وقت کی روٹی بھی میسر نہیں تھی ۔ لیکن اب دیکھتے ہیں کہ یہ بے سروساماں افغان مہاجرین کروڑوں روپوں مالیت کے مکانات میں رہتی ہے اور ان کی اکثریت اربوں روپوں کے سرمایہ کے ساتھ پاکستانی معیشت میں اہم حصے دار کے طور پر سامنے ہے ۔ اس صورتحال میں ان افغان مہاجرین کے شہری علاقوں میں طرز رہائش کو دیکھا جائے تو پاکستانیوں سے زیادہ آسودہ حال نظر آتے ہیں ۔ ایک پاکستانی اپنا شناختی کارڈ بنانے کے لئے پانچ گھنٹے لائن میں کھڑے ہوکر دو برسو ں میں اپنا شناختی کارڈ اور پاسپورٹ بناتا ہے جبکہ افغان مہاجر ، پاکستانی کارڈ اور پاسپورٹ صرف ایک ہفتے کے اندر بنا لیتا ہے۔ بہترین کالج اور اسکول میں داخلہ اور آنے جانے کے لئے بہترین ٹرانسپورٹ رکھتا ہے۔ ملازم پیشہ افغان مہاجرین کی تعداد نہ ہونے کے برابر ملے گی جبکہ افغان مہاجرین نے اپنے میزبانوں کو ہی نوکریاں دی ہوئی ہیں۔میں افغان مہاجرین کو درپیش مسائل سے بھی ناواقف نہیں ہوں ، کہ انہیں پولیس کے ہاتھوں اُس وقت پریشانی کا سامنا ہوتا ہے جب اُن کے پاس مہاجر کارڈ نہیں ہوتا اور وہ پاکستان کی کسی قانونی دستاویز نہ ہونے کی وجہ سے پھنس جاتا ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستانی ریاست نے انتہائی نرمی سے کام لیتے ہوئے انہیں مہاجرین کیمپ کے بجائے پاکستان کے کسی بھی حصے میں رہنے کی آزادی دی اور ان کی نقل و حرکت پر سخت گرفت نہیں رکھی ۔ جس کی بدولت افغان مہاجرین نے اپنی خداد اد صلاحیتوں سے بھرپور فائدہ اٹھایا اور لاکھوں افغان مہاجرین نے افغانستان کی بہ نسبت پاکستان میں اپنی معاشی زندگی میں انقلاب برپا کردیا اور دیکھتے ہی دیکھتے ان کی سماجی طرز زندگی میں تبدیلی پیدا ہوئی اور یہ پاکستانی معاشرے کا اہم جز بن گئے ۔ہم اس بات کا ذکر ہی نہیں کرتے کہ افغانستان سے آنے والے مہاجرین کی وجہ سے پاکستان میں منشیات ، کلاشنکوف کلچر کو فروغ حاصل ہوا ۔ لیکن یہ ضرور پوچھنا چاہتے ہیں اُس افغان حکومت سے کہ اُن میں اتنی استعداد تو ہے نہیں کہ اپنے لاکھوں شہریوں کو بحفاظت اپنے وطن بلا لے لیکن امریکہ یا بھارت کی کاسہ لیسی کرتے ہوئے پاکستان پر وار کرنے کا کوئی موقع نہیں چھوڑتے ۔ امریکی صدر ٹرمپ کے احمقانہ بیانات پر جس طرح بھارت اور افغانستان کی حکومتوں نے ردعمل کا اظہار کیا وہ انتہائی افسوس ناک اقدام تھا۔شائد انہیں اس بات سے غرض نہیں کہ پاکستان نے ان کے لاکھوں شہریوں کو جو باعزت مقام دیا اور پاکستانی شہریوں سے بڑھ کر آزادی دی انہیں امن و سکون کے ساتھ اپنی معاشرتی زندگی میں انقلاب لانے کا موقع فراہم کیا اس کے مقابلے میں اخلاقیات اور پختون ولی تو یہ ہے کہ افغان حکومت کم ازکم پاکستان کے ساتھ دشمنی کا رویہ ترک کرکے امریکی صدر ٹرمپ کے خجلت آمیز دشنام طرازیوں پر سنجیدگی کا مظاہرہ کرتی۔
پاکستان میں افغانستان کی سرزمین میں مداخلت کرکے تاریخی غلطی کی تھی جس کا خمیازہ پاکستان کی آنے والی نسلیں بھی بھگتی رہیں گی لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہغلطی کی سزا کسی اور کو ملے۔ پاکستان کی ہر حکومت نے افغان مہاجرین کی عزت ِ نفس کا خیال رکھا اور کسی بھی سیاسی تبدیلی میں کسی افغان مہاجرین کے لئے سخت پالیسی نہیں اپنائی۔ کوئی پاکستانی بھی نہیں چاہتا کہ افغانی خاندانوں کو زبردستی اُن کے وطن بھیج دیا جائے یا پھر پاکستان میں اُن کے خلاف ریاستی رویہ اتنا تنگ نظر ہوجائے کہ وہ کہیں اور جانے پر مجبور ہوجائیں ۔ پاکستان کی اکثریت چاہتی ہے کہ افغان مہاجرین کیلئے پاکستانی ریاست اپنی پالیسی کو حتمی شکل دے اور عالمی برادری کو آگاہ کرے کہ 70ہزار قیمتی جانوں کی قربانی اور 120بلین ڈالرز سے زائد کے نقصانات کے باوجود امریکہ ،بھارت اور افغانستان کی ہرزہ سرائی پاکستانی قوم کے لئے مسائل کا سبب بن رہی ہے۔
تمام تر بھائی چارہ اور جذبہ انصار دکھانے کے باوجود پاکستان کی بقا و سلامتی کو خطرے میں ڈالنا اب ممکن نہیں ہے۔ہم پاکستانی لاکھوں مہاجرین کا بوجھ اٹھاتے رہے ہیں لیکن اس کے نتیجے میں جو نفرت پیدا ہو رہی ہے اس کے نتائج کی ذمے دار خود افغان حکومت ہوگی۔پاکستانی حکومت کو افغانی خاندانوں کے لئے واضح پالیسی مرتب کرنا ہوگی کہ جو افغان شہری پاکستان میں رہنا چاہتے ہیں تو وہ آئین کے مطابق دوہری شہریت کے کس طریقہ کار کے مطابق پاکستانی دھارے میں شامل ہوسکتے ہیں۔ پاکستان انہیں تجارت سے بھی نہیں روکتا ، کاروباری سہولیات و مراعات پر اُن کا بھی وہی حق ہے جو کسی بھی غیر ملکی کا ہے ، اس لئے پاکستان کے آئین کے مطابق انہیں وہ حق ملنا چاہیے جس کا آئین پاکستان اجازت دیتا ہے۔کئی افغان خاندانوںنے پاکستانی خاندانوں میں رشتہ داریاں کرلی ہیں اور ان کی اولادیں پاکستان میں پیدا ہو ئی ہیں اور ان میں اکثریت افغانستان بھی نہیں جانا چاہتی ۔ اس کے لئے بھی ریاستی پالیسی کو واضح کرنا ہوگا ۔ لیکن یہ بات طے شدہ ہے کہ افغان مہاجرین کی آڑ میں افغانستان سے آنے والے دہشت گرد و شدت پسند وں کے لئے پاکستان میں کوئی جگہ نہیں ہے ۔ امریکہبھارت اور افغانستان سمجھتے ہیں کہ افغانستان کے بڑے حصے پر ان کاکنٹرول ہے تو انہیں وہاں بسانے کیلئے فوراََ اقدامات کریں تاکہ افغان مہاجرین باعزت طریقے سے واپس اپنے وطن جا سکیں۔ امریکہ کو بڑی خواہش ہے کہ بھارت افغانستان میں اپنا کردار بڑھائے تو ان لاکھوں افغان مہاجرین کو بھارت منتقل کردے، پھر دنیا اور اچھی طرح دیکھ لے گی بھارت کی مذہبی روا داری۔۔۔۔ افغانستان کی گزشتہ اور موجودہ حکومتیں تنگ نظر اور پاکستان مخالف ہیں ۔ ان کے رویوں کے سبب پاکستان میں رہنے والے افغان مہاجرین کے لئے مسائل پیدا ہو رہے ہیں اور نفرتوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔
افغان حکومت کے غیر معاوندانہ رویوں کی وجہ سے پاکستان میں نسلی عصبیت پروان چڑھ رہی ہے۔ نام نہاد قوم پرست پاکستان میں رہتے ہوئے پاکستان کی سا لمیت اور وقار کے منافی بیانات دے کر افغان مہاجرین کیلئے مزید مشکلات کا سبب بھی بن رہے ہیں ۔ جس کی وجہ سے پاکستان میں رہنے والی پختون قوم کو نامساعد حالات کا سامنا ہے اور پاکستان میں رہنے والی پختون قوم بھی معتصبانہ رویئے کا شکار ہو رہی ہے اور ان میں احساس محرومی بڑھتا جا رہا ہے۔پاکستان کی حدودمیں رہنے والی مستقل آباد پختون قوم قیام پاکستان سے قبل بھی اپنی سرزمین میں رہ رہی تھی اور آج بھی رہ رہی ہے لیکن انہیں افغان مہاجرین کی جانب سے پاکستانی قوانین کی خلاف ورزیوں اور افغان حکومت کے رویوں کے وجہ سے طبقاتی کشمکش کا نشانہ بنایا جا رہا ہے ۔ جس سے ناقابل تلافی سماجی مسائل جنم لے رہے ہیں۔ پاکستان افغان مہاجرین کیلئے اپنی داخلی و خارجہ پالیسی کا اعلان کرے اور افغان مہاجرین کی واپسی کی تاریخ میں مزید توسیع دینے سے گریز کرے۔افغان مہاجرین پاکستان میں رہنے کیلئے آئین میں دی گئی مراعات و سہولیات کے تحت اپنے قیام کو قانونی و باعزت بنائیں تاکہ وہ باوقار و آبرو مند رہ سکیں ۔افغان حکومت کو کم ازکم پختون ولی کی روایات کا پاس رکھنے کی ضرورت ہے کہ وہ لاکھوں افغان شہریوں کی چاردہائیوں سے میزبانی کرنے والے ملک پاکستان کے ساتھ احسان فراموشی نہ کرے۔ پاکستانی عوام کبھی نہیں چاہے گی کہ افغان مہاجرین کے ساتھ ناروا سلوک ہو اور ان کی عزت نفس کو ٹھس پہنچے ۔لیکن تالی دونوں ہاتھ سے بجتی ہے یہ یاد رکھنا افغان حکومت کیلئے بہت ضروری ہے۔