خیبر پختونخوا (جیوڈیسک) پاکستان کی ایک سیاسی و مذہبی جماعت جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ فضل الرحمٰن نے کہا ہے کہ افغان مہاجرین کو زبردستی ان کے ملک واپس بھیجنے سے اجتناب کیا جائے۔
مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ یہ ایک انسانی مسئلہ ہے اور اس کو سختی سے حل نہیں کیا جانا چاہیئے۔
“مہاجرین سے متعلق پوری دنیا میں ایک قانونی طریقہ کار ہے، ظاہر ہے جب باہر کی آبادیاں آتی ہیں تو کسی نا کسی حوالے سے شکایتیں جنم لیتی ہی ہیں لیکن ان کو کنٹرول کرنے کے لیے بھی ضابطے ہیں کوئی قانون ہیں۔‘‘
انھوں نے کہا کہ جن حالات میں یہ افغان مہاجرین پاکستان آئے تھے افغانستان میں ویسے ہی حالات اب بھی ہیں۔
“بجائے اس کے کہ یہ لوگ چالیس سال تک آپ کی مہمان نوازی کے ممنون رہتے (اگر انھیں اس طرح بھیجا گیا تو) وہ مہمان نوازی کو بھول جائیں گے اور یہ آپ کا آخری رویہ ساری زندگی یاد رہے گا۔ یہ طریقہ نہیں ہے کہ آپ کسی کو اس طریقے سے ملک سے نکالیں۔ ان کو قانون کے مطابق رہنے کا حق دیا جائے اُس وقت تک جب تک کہ افغانستان میں صورت حال بہتر نہیں ہو جاتی۔”
حالیہ ہفتوں میں اپنے وطن واپس جانے والے افغان مہاجرین کے تعداد میں ایک نمایاں اضافہ دیکھنے میں آیا۔ اقوام متحدہ کا ادارہ برائے مہاجرین یعنی ’’یو این ایچ سی آر‘‘ افغان مہاجرین کی رضاکارانہ واپسی میں معاونت کر رہا ہے۔
پاکستان میں اب بھی لگ بھگ پندرہ لاکھ افغان مہاجرین قانونی طور پر جب کہ اتنی ہی تعداد بغیر اندراج کے یہاں مقیم ہیں۔
پاکستانی حکام کا کہنا ہے کہ پاکستان ایک غریب ملک ہونے کے باوجود ایک طویل عرصے سے ان افغان مہاجرین کی میزبانی کرتا رہا ہے۔
رواں سال جون کے اواخر میں پاکستان کی حکومت نے اندراج شدہ مہاجرین کی واپسی کی مدت میں چھ ماہ کی توسیع کرتے ہوئے اس مدت کو 31 دسمبر تک بڑھا دیا ہے۔
تاہم پاکستان میں رہنے والے اکثر افغان مہاجرین کا کہنا ہے کہ وہ ایک طویل عرصے سے پاکستان میں مقیم ہیں اور یہاں ان کی جائیدادیں اور کاروبار ہیں جب کہ اُن کے بچے یہاں تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔