تحریر : میر افسر امان پاکستانیوں کی کثیر تعداد پاکستان کے گلی کوچوں میں آباد افغان مہاجرین کو اپنا اسلامی بھائی تصور کرتی ہے۔ چالیس سال سے بیرونی دشمنوں کے حملوں اور سفاکیت کی وجہ سے وہ در بدر ہوئے ہیں۔ پاکستانی ان سے محبت کا اظہار کرتے ہیں اور کرتے رہیں گے۔ ہاں کچھ پاکستانی جو مسلمان ہونے سے پہلے قوم پرستی کے وباء میں مبتلا ہیں وہ افغانیوں کو صرف افغانی ہی تصور کرتے ہیں مگر اللہ کا شکر ہے کہ وہ پاکستان کی آبادی میں آٹے میں نمک کے برابر ہیں۔
یہی کچھ افغانستان کے قوم پرست صدر اشرف غنی بھی اپنے ایک بیان میں کہ چکا ہے کہ پاکستان افغانستان کا برادر اسلامی ملک نہیں ہے بس ایک پڑوسی ملک ہے۔اسے یہ کہتے ہوئے ذرا برابر شرم بھی نہیں آئی کہ پاکستان میں اس کے ملک کے تیس لاکھ سے زائد شہری پناہ گزین ہیں جن کی دیکھ بھال پاکستان تقریباً چالیس سال سے کر رہا ہے۔پاکستان میں آباد زیادہ ترافغانی روس کے قبضے کے دوران پاکستان میں ہجرت کر کے آئے تھے۔جب روس کو افغانیوں نے جہاد کے ذریعے شکست سے دو چار کیا تھا اور اُس کی فوجیں واپس اپنے ملک چلیں گئی تھیں تو کچھ افغان مہافر واپس اپنے ملک چلے گئے تھے۔ مگر امریکا کی سازش کے تحت افغان وار لارڈز کو آپس میں لڑا دیا گیا اور افغانستان میں کوئی پائیدار حکومت قائم نہیں ہونے دی گئی جس کی وجہ سے پاکستان میں آباد افغان مہاجریں کی واپسی روک گئی تھی۔
پھر افغانستان میں طالبان کی اسلامی حکومت قائم ہوئی تو کچھ مہاجریں واپس گئے مگرشیطان کبیر نے طالبان کی اسلامی حکومت پر حملہ کر دیا۔ اپنے ساتھ ڈیڑھ لاکھ سے زائد٤٨ ملکوں کی نیٹو فوجیوں کو لے آیا اور پورے افغانستان پر کارپٹ بمباری کر کے اسے تورہ بورا بنا دیا تھا۔ اللہ نے فاقہ مست افغانیوں کی غیبی مدد کی اور پندرہ سال تک اپنے ظلم و سفاکیت کے باوجود امریکا کو منہ کی کھانی پڑی اور اُسے واپس جانا پڑا۔ایک ایک کر کے ناٹو فوجیں بھی امریکا کا ساتھ چھوڑتی گئیں۔اب جاتے جاتے افغانستان میں ایک قوم پرست اشرف غنی پٹھو حکومت بنا کر اور بھارت کے ساتھ مل کر پاکستان کے بگوڑوں سے پاکستان پر بزدلی سے حملے کروا رہا ہے۔
Terrorism in Pakistan
صاحبو! ہمارے پیارے پیغمبر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے حج کے موقعے پر اپنے آخری خطبہ میں دوسری نصیحتوں کے ساتھ یہ بھی کہا تھا کہ میں نے قومیتوں کے بتوں کو اپنے پائوں تلے روندھ ڈالا ہے۔ انسان کی برتری کی بنیاد تقویٰ ہے نہ کہ جا لہیت کے زمانے کی قومیتیں۔ مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں۔پاکستان کے افغان بھائیوں ، پاکستانی آپ سے یہ تواقع رکھتے ہیں کہ آپ افغانستان سے پاکستان میں دہشت گردی کو روکنے کی کو شش کریں۔ قوم پرست افغانیوں کوپیغام بھیجیں کہ پاکستان میں دہشت گردی سے باز آ جائو۔ آپ پاکستان کے چپے چپے میں آباد ہیں۔ کاروبار کر رہے ہیں۔ پراپرٹیاں خرید رہے ہیں خریدی ہوئی پراپرٹیوں میں آرام سے رہائش پذیر ہیں۔ آپ نے پاکستان کے شہروں میںبڑے بڑے پلازہ بنا رکھے ہیں۔ پاکستان میں اب تک آپ کی دو نسلیں پروان چڑھ گئیں ہیں۔ آپ پاکستان کے تمام شہروں میں پبلک ٹرانسپورٹ چلا رہے ہیں۔
آپ کپڑے کا کاروبار کر رہے ہیں۔کیا آپ کو پاکستان کے جن شہروں میں آباد ہیں اُن میں اپنی تنظیمیں قائم نہیں کرنی چائیں تاکہ آپ کی آواز افغانستان کی قوم پرست امریکی پٹھو حکومت تک پہنچا سکیں کہ وہ پاکستان کی فراخدلی سے ناجائز فاہدہ نہ اُٹھائیں اور پاکستان کے احسان مند رہیں۔ حکومت پاکستان کی مخالفت چھوڑ دیں۔ امریکا اور بھارت کے کہنے پر پاکستان مخالف سرگرمیوں بند کریں۔پاکستان میں دہشت گردی کے خلاف جاری ضرب عضب کے دوران پاکستان سے فرار ہو کر جانے والے ٹی ٹی پی کے سربراہ ملا فضل اللہ کو گرفتار کے کے پاکستان کے حوالے کریں۔ ملا فضل اللہ نے پشاور میں آری پبلک اسکول پر حملہ کروا کے سیکڑوں بے گناہ طالبعلموں اور اسٹاف کر دہشت گردی کا نشانہ بنایاتھا اور ڈھٹائی سے اس دہشت گرد حملے کو قبول بھی کیاتھا،پاکستان کے اندر اس کے علاوہ بھی دہشت گرد حملے کیے اور انہیں قبول بھی کیا۔ملا فضل اللہ اور اس کے اور کئی دہشت گرد پاکستان میں دہشت گردی میں ملوث ہیں ۔کیا جہاں آپ اور آپ کے بال بچے عزت و احترام سے رہ رہے ہیں۔
Pak-Afghan Border
آپ کاروبار کر رہے ہیں دہشت گرد حملے ہونے پر خاموش بیٹھے رہیں گے۔ نہیں نہیں آپ کوہر گز خاموش نہیں بیٹھے رہنا چاہیے۔آپ کو اس معاملے پر افغان حکومت سے زبردست قسم کا احتجاج کرنا چاہیے۔ایسا احتجاج جو دنیا کو نظر آئے اور افغان حکومت پر پریشئر بڑھے اور وہ پاکستان کے دشمنوں کو جوآپ کے بھی دشمن ہیں پاکستان کے حوالے کرے۔ ان کو پاکستان میں دہشت گرد کاروائیوں سے روکے۔آپ افغانستان میں موجود اپنے رشتہ داروں سے بھی مطالبہ کر سکتے ہیں ،جو یقیناً لاکھوں کی تعداد میں ہونگے کہ وہ افغان حکومت کو مجبور کریں کہ افغان حکومت پاکستان میں دہشت گردی سے باز آ جائے۔ افغانستان سے ہر روز ہزاروں افغانی بغیر ضروری کاغذات کے پاکستان میں داخل ہوتے ہیں اور اتنی ہی تعدد میں واپس افغانستان بھی جاتے ہیں۔ ان میں یقیناً دہشت گرد بھی پاکستان میں داخل ہوتے ہوں گے۔ جس پر پاکستان نے سیکورٹی کے لیے اپنے حدود میں گیٹ بنانے کی کوشش کی اس پر افغان فوجیوں نے فائرنگ کی اور پاک فوج کے ایک میجر شہیداور ١٩ دوسرے افراد ذخمی ہوئے۔ اس پر بھی آپ کو احتجاج کرنا چاہیے۔
پاکستان کو بھی چاہیے کہ افغان باڈر کو سیل کرے بغیر ضروری دستاویزات کے افغانیوں کے داخلے کو روکے تاکہ دہشت گرد آرام سے پاکستان میں داخل نہ ہوسکیں اور بے گناہ لوگوں کا قتل عام نہ کر سکیں۔پاکستان کے عوام اور افغانستان کے عوام کے مفادات ایک جیسے ہیں۔دونوں مسلمان برادر ملک ہیں۔ بھارت نے ان دونوں ملکوں میں دشمنی ڈالی ہوئی ہے۔جب تک افغانستان کے عوام اسلام کے دشمن بھارت سے جان نہیں چھڑاتے حالات جون کے توں ہی رہیں گے اس لیے دونوں ملکوں کے عوام کو اپنے دشمن کو پہچاننا چاہییے۔ اس لیے پاکستان میں آباد افغان مہاجرین کے نام پاکستانیوں کا یہ پیغام ہے کہ وہ اس معاملے میں اپنا کردار ادا کریںتاکہ دونوں بردر اسلامی ملک شیر وشکر ہو جائیں اور دشمن ناکام ہو آمین۔
Mir Afsar Aman
تحریر : میر افسر امان کنوینر کالمسٹ کونسل آف پاکستان