تحریر :شجاع اختر اعوان روس اور افغان جنگ کے دوران بڑی تعداد میں افغان پناہ گزینوں نے پاکستان کا رخ کیا۔ اور آج تک یہی اپنی زندگی گزار رہے ہیں۔ ان مہاجرین کی آمدکے ساتھ ہی وطن عزیز میں منشیات اور کلاشنکوف کلچر عام ہوا۔ جہاں ایک طرف امن عامہ کے مسائل پیدا ہوئے تو دوسری طرف ان مہاجرین نے ملک بھر میں چھوٹے سے چھوٹے اور بڑے سے بڑے کاروبار پر بھی قبضہ جما لیا ۔ جس سے بے روزگاری عام ہوئی ۔ ایک سروے کے مطابق پاکستان میں آج بھی پچاس لاکھ سے زائد افغانی رہائش پذیر ہیں۔
جن میں سے اکثریت کاباقاعدہ ریکارڈ حکومتی اداروں کے پاس موجود نہیں۔ ان میں سے زیادہ تر کے پاس مہاجر کارڈ تک موجود نہیں۔ جبکہ گزشتہ کئی دہایوں سے رہائش پذیر افغانیوںنے غیر قانونی طورپر پاکستان شناختی کار ڈ تک حاصل کررکھے ہیں ۔ اور یہاں پر اپنی جائیدادیں خرید رکھی ہیں۔ اوراپنے آپ کو پاکستانی ظاہر کرتے ہیں۔ ذرائع کے مطابق ایسے افغانی بعض سرکاری اداروں میں ملازمت پیشہ بھی ہیں۔ کراچی سے لے کر خیبر اور گلگت سے لے کر کوئٹہ تک چھوٹے سے چھوٹے اور بڑے سے بڑے کاروبار پر ان کا قبضہ ہے۔ پاکستان کے بعض علاقوں کے بازار ،گلی کو چے منی افغانستان کا منظر پیش کرتے ہیں۔ یہاںتک ان مہاجرین نے مقامی آبادیوںکے ساتھ رشتوں کالین دین کرکے باقاعدہ رشتہ داریاں قائم کرلی ہیں۔
Polio
افغان مہاجرین کے پاس افغانستان سے غیرقانونی طورپر عزیز و اقارب اور مہمانوں کا آنا معمول ہے۔ جن کے پاس کوئی قانونی دستاویز نہیں ہوتی یہ مہاجرین محکمہ صحت کے پروگراموں پولیو ویکسینیشن و دیگر میں تعاون نہیں کرتے جس کی وجہ سے پولیوں کا خاتمہ ممکن نہیں اور پاکستان کو سفری پابندیوں کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ اور پولیو وائرس افغان مہاجرین کے عزیز و اقارب کے ذریعے ہی پاکستان منتقل ہو رہا ہے۔
امن عامہ کی صورت حال کا جائزہ لیا جائے توملک میں ہونے والی دہشت گردی کے بڑے سے بڑے واقعات اور چھوٹے سے چھوٹے جرائم میں بھی متعدد بار افغان مہاجرین ملوث پائے گئے ۔ جس کے ثبوت انٹیلی جنس ایجنسیوں کے پاس واضح طورپر موجود ہیں۔ افغان اور انڈین انٹیلی جنس کی پاکستان میں کاروائیاں کسی ڈھکی چھپی نہیں ان میں بھی یہ افراد سہولت کار کا کردار ادا کررہے ہیں۔
قومی سلامتی کے اداروں کو چاہیے کہ نادرا سے مکمل ریکارڈ نکلواکر جعلی شناختی کارڈ حاصل کرنے والے مہاجرین کے کارڈ بلاک کیئے جائیں اور ان مہاجرین کی واپسی کو یقینی بنایا جائے ۔ امریکہ افغان جنگ کے وقت چین اورروس نے اپنی سرحدیں بند کر کے افغان پناہ گزینوںکا داخلہ روک دیا اور یہی وجہ ہے کہ یہ دونوںممالک ترقی کی منازل طے کر رہے ہیں اور امن و عامہ کے مسائل سے بھی دوچار نہیں حضرت علی رضی اﷲ تعالی عنہ کا قول ہے “جس سے نیکی کرو اسکے شر سے بچو” تاریخ گواہ ہے کہ کل ہم نے ان مہاجرین کو پناہ دے کر نیکی کی اور آ ج ان کے شر کا شکار ہیں۔