تحریر : قادر خان یوسف زئی پاکستان کی فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے جرمنی کے شہر میونخ میں جاری تین روزہ سکیورٹی کانفرنس سے خطاب میں کہا تھا کہ مختلف شدت پسند گروپ افغان مہاجرین کیمپوں کو اپنے مقاصد کے حصول کے لیے استعمال کرتے ہیں اور اب وقت آ گیا ہے کہ افغان مہاجرین باعزت طریقے سے اپنے ملک واپس چلے جائیں۔آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے کابل میں ہونے والی چیفس آف ڈیفنس کانفرنس میں بھی خطاب کرتے ہوئے کہا تھاکہ خطے ملکوں کے انفرادی طور پر نہیں بلکہ مشترکہ طور پر کاوشوں سے ترقی یافتہ بن جاتے ہیں۔آرمی چیف کا کہنا تھا کہ پاکستان نے اپنی سرزمین سے دہشت گردوں کی ہر طرح کی پناہ گاہوں کو ختم کردیا ہے تاہم دہشت گردوں کی موجودگی کے نشانات ملتے ہیں جو 27 لاکھ افغان مہاجرین کی موجودگی کا فائدہ اٹھاتے ہیں۔انھوں نے کہا کہ موثر سیکیورٹی ہم آہنگی نہ ہونے اور افغان مہاجرین کی موجودگی کا دہشت گرد فائدہ اٹھاتے ہیں لیکن جاری آپریشن ردالفساد کے باعث ان کا سراغ لگایا جارہا ہے اور انھیں نشانہ بھی بنایا جارہا ہے۔پاکستان میں افغان مہاجرین کی چار عشروں سے موجودگی کا مسئلہ مسلسل ملکی سلامتی کے لئے مسائل میں اضافے کا سبب بن رہا ہے۔
پاکستان اس وقت قانونی و غیر قانونی طور پر 30لاکھ سے زاید افغان مہاجرین کو اپنی سرزمین میں پناہ دے چکا ہے۔ پاکستان نے افغان مہاجرین کے حوالے سے ہمیشہ نرم خوئی اور کشاد دلی کا مظاہرہ کیا اور انہیں پاکستان میں کسی بھی حصے میں نقل و حرکت و کاروباری سرگرمیوں کی اجازت دی۔افغان مہاجرین کے لئے معاشی دوازے کھلے رکھے اور کسی بھی مرحلے پر افغان مہاجرین کے ساتھ ریاست نے کبھی سخت رویہ اختیار نہیں کیا ۔پاکستان نے کئی مرتبہ افغان مہاجرین کے واپسی کی توسیع کی مدت میں اضافہ کیا ۔ کئی بار ڈیڈ لائن دی ۔ لیکن امریکا سمیت اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین کی جانب سے پاکستان کو درپیش مسائل کو نظر انداز کیا جاتا رہا ہے۔ کابل حکومت کا رویہ پاکستان مخالف ہے اور کوئی بھی ایسا موقع ضائع نہیں کرتا جس میں پاکستان کو نقصان پہنچانے سمیت کسی بھی قسم کی دشنام طرازی اختیار نہ کی جاتی ہو۔پاکستانی ریاست نے ہمیشہ صبر و تحمل سے کام لیا اور قانونی طور پر مقیم افغان مہاجرین کے علاوہ غیر قانونی مہاجرین کو بار بار تاکید کی کہ وہ اپنا اندارج کرائیں ۔ پاکستان کی جانب سے اختیار نرمی کا ہمیشہ غلط مطلب لیا گیا۔ لیکن پاکستان کا اولیّن مقصد یہی رہا ہے کہ چار عشروں سے رہنے والے افغان مہاجرین کی جتنی خدمت کی ہے اُسے رائیگاں نہ ہونے دیا جائے۔پاکستان میں موجود افغان مہاجرین دونوں ممالک کے لئے ایک سفیر کا درجہ بھی رکھتے ہیں۔ ان کے ساتھ روا رکھے جانے والا رویہ دونوں ممالک کے مستقبل کے تعلقات کا تعین بھی کرتا ہے۔
جب میونخ سیکورٹی کانفرنس میں جنرل قمر جاوید باجوہ نے افغان مہاجرین کی باعزت واپسی کے جانب توجہ مبذول کرائی تو کابل کی جانب سے صدر اشرف غنی کا بیان بھی جاری ہوا ۔افغان صدر اشرف غنی نے کہا ہے کہ” ہم افغان مہاجرین کو واپس لانے کیلئے تیار ہیں تاہم پاکستان دو سال کی مہلت دے دے،یہ تاثر ختم ہونا چاہیے کہ مہاجرین خطے میں عدم استحکام کی وجہ ہیں۔کابل میں افغان صدارتی محل میں سویت فوج کے افغانستان سے انخلا کے 29 سال مکمل ہونے پر منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے اشرف غنی نے کہا کہ میری اولین ترجیح ہے کہ آئندہ 24 ماہ میں پاکستان میں موجود افغان پناہ گزینوں کو وطن واپس لایا جائے، ہمارے اس اقدام سے یہ تاثر ختم ہوجائے گا کہ افغان مہاجرین خطے میں امن و استحکام کے قیام میں ایک رکاوٹ ہیں۔اشرف غنی نے کہا ہم نے عزم کرلیا ہے اب پاکستان کو موقع نہیں دیں گے کہ وہ الزامات لگائے کہ جو کچھ بھی ہورہا ہے وہ مہاجرین کی وجہ سے ہے، ہم ان افراد کو بھی افغانستان واپس لائیں گے جو اپنے ملک آکر دوبارہ پاکستان گئے یا دیگر ممالک میں جانے کی کوشش کی۔”پاکستان کی جانب سے افغان مہاجرین کی باعزت واپسی کا مطالبہ بھی نہایت احترام سے کیا جاتا ہے ۔ ورنہ جن جن ممالک میں افغان مہاجرین نے پناہ لی ہوئی ہے اس کا اندازہ صرف ایک واقعے سے لگایا جا سکتا ہے کہ گزشتہ دنوں جرمنی سے صرف 14 افغان مہاجرین کی جبری واپسی کے لئے خصوصی طیارہ استعمال کیا گیا ۔یعنی پاکستان میں مہاجرین کو مزید مہلت دینے کے مطالبات کرنے والے مغربی ممالک چند افراد کو بھی اپنے ملک میں پناہ دینے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ایمنسٹی انٹرنیشنل کی رپورٹ کے مطابق پاکستان پوری دنیا میں سب سے مہاجرین کو پناہ دینے والا دوسرابڑاملک ہے۔ ایران میں بھی لاکھوں کی تعدا د میں مہاجرین نے پناہ لی ہوئی ہے ۔ لیکن یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ ایران میں افغان مہاجرین کو نقل و حرکت کی قطعی اجازت نہیں ہے۔
شہری آبادیوں سے دور مہاجرین کو کیمپوں تک محدود رکھا ۔پاکستان اور ایران کے علاوہ متحدہ عرب امارات ، جرمنی ، امریکا ، آسٹریلیا ، آسٹریا، بھارت ، کینیڈا، سویڈن ، تاجکستان، قطر، شام اور ترکی میں بھی افغانی مہاجرین نے پناہ لی ہوئی ہے لیکن ان تمام ممالک میں مہاجرین کی تعداد انتہائی قلیل ہے۔پاکستان نے سوویت یونین و افغان جنگ کے دوران 31لاکھ افغان مہاجرین کو پناہ دی جبکہ غیر قانونی طور پر آنے والے مہاجرین کی تعداد اس سے کئی زیادہ تھی ۔ سوویت یونین کے جانے کے باوجود بھی افغان مہاجرین واپس اپنے وطن نہیں گئے ۔ جب 2001میں امریکا اور نیٹو افواج نے افغانستان میں جنگ مسلط کی تو اعداد و شمار کے تحت25لاکھ افغان مہاجرین نے اپنا اندارج کرایاتھا ۔ جبکہ 15لاکھ سے زاید مہاجرین ایسے تھے جنھوں نے خود کو قانونی طور پر رجسٹرڈ نہیں کرایا۔ ایک اندازے کے مطابق اِس وقت پاکستان کے مختلف حصوں میں 40لاکھ سے زاید افغان مہاجرین اپنے اہل و عیال کے ساتھ رہ رہے ہیں۔جبکہ صرف15لاکھ افغان مہاجرین نے قانونی طور پر اپنی رجسٹریشن کروائی ہوئی ہے۔31 جنوری 2018کو مہاجرین کی واپسی کی آخری مہلت ختم ہوچکی تھی لیکن انسانی ہمدردی کی بنیاد وں پر60دنوں کی مزید منظوری دے دی گئی تھی ۔ جس کے بعد31مارچ2018کو پاکستان کی جانب سے دی جانے والی یہ مہلت بھی ختم ہوجائے گی۔
دیکھنا یہ ہے کہ پاکستان افغان مہاجرین کی باعزت واپسی پر زور کیوں ڈال رہا ہے اس کے اصل حقائق کیا ہیں ؟۔ اس بات میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ افغان مہاجرین کی کثیر تعداد پُر امن ہے اور بحالت مجبوری اپنے آبائی وطن سے ہجرت کی ۔ مزید یہ بھی ایک انسانی مسئلہ درپیش ہے کہ اس وقت لاتعداد افغانی ایسے بھی ہے جنھوں نے افغانستان کی شکل بھی نہیں دیکھی ۔ لیکن افغان مہاجرین کی خواہش بھی ہے کہ وہ واپس اپنے مادرِ وطن لوٹیں۔ لاکھوں افغان مہاجرین ایسے بھی ہیں جو پاکستان میں رہ کر پاک۔ افغان تجارت میں بھاری سرمایہ کاری کرچکے ہیں۔ بھارت کی تجارت کے لئے پاکستان کی راہدری بھی استعمال کرتے ہیں ، اسمگلروں کے لئے پاکستان سُونے کی کان ہے ۔ وہ پاکستان میں رہ کر دولت کمانا تو چاہتے ہیں لیکن اپنے اہل و عیال کو افغانستان واپس نہیں لے جانا چاہیے۔ پاکستانی دستاویزات بنا کر خود کو پاکستانی ثابت کرنے کے لئے علاقائی سیاست میں بھی بھرپور حصہ لینے کے لاکھوں جعلی ووٹوں کا اندارج کراچکے ہیں۔ ایسے افغان مہاجرین بھی ہیں جو جعلی دستاویزات پر پاکستان میں رہ رہے ہیں۔ افغان مہاجرین کو تین طبقات میں اگر تقسیم کیا جائے تو اس میں پہلا طبقہ ایسا ہے جو کیمپوں میں رہ رہتے ہیں یا کچی آبادیا ں بنا کر روزانہ اجرت پر کام کرتے ہیں اور کسمپرسی کی زندگی گذار رہے ہیں ۔دوسرا طبقہ ایسا ہے جس نے قانونی رجسٹریشن کا طریقہ اختیار کیا اور نارا کا شناختی کارڈ حاصل کرکے یہ سہولت حاصل کرلی کہ وہ پاکستان کے کسی بھی حصے میں رہ سکتے اور اپنا کاروبار سمیت جائیداد بھی خریدسکتے ہیں۔ تیسرا طبقہ وہ ہے جو غیر قانونی طور پر پاکستان میں جعلی دستاویزات کے ساتھ مقیم ہیں ، بھاری سرمایہ کر رکھی ہے ۔ اربوں روپے کاروبار میں لگا رکھے ہیں اور افغانستان کی سرزمین کو تجارتی مفادات کے لئے بھی استعمال کرتے ہیں۔
پاکستان سے اجناس اور افغانستان سے منشیات کی اسمگلنگ سمیت غیر قانونی دھندوں میں بھی ملوث ہیں ۔ پاکستان مخالف سرگرمیوں میں بھی ملوث ہیں اور پاکستان کے خلاف افغانستان کی سرزمین میں بھی بیٹھ کر سازشیں کرتے ہیں اور پاکستان کے خلاف دہشت گرد کاروائیوں میں سہولت کاری میں ملوث ہے۔پاکستان نے اپنی سرزمین سے شدت پسندوں کے ٹھکانے تقریباََ ختم کردیئے ہیں ۔ آپریشن رد الفساد بھی جاری ہے ۔ لیکن منفی سرگرمیوں میں ملوث عناصر افغان مہاجرین کی آڑ لیکر پاکستان اور افغانستان کے لئے بھی مشکلات کا سبب بنتے ہیں۔پاکستان دراصل اسی جانب اقوام عالم کی توجہ مرکوز کرانا چاہتا ہے کہ لاکھوں مہاجرین میں اگر کوئی امریکا اور کابل حکومت کو مطلوب شخص چھپ جاتا ہے تو اس کا سراغ لگانا بہت مشکل و دشوار گزار عمل ہے ۔ امریکا جدید ترین آلات و ٹیکنالوجی ہونے کے باوجود افغان طالبان اور حقانی نیٹ ورک کی قیادت و رہنمائوں کو جب تلاش نہیں کرسکتا تو پاکستان سے اس بات کی توقع کرنا کس طرح ممکن ہے کہ وہ لاکھوں ، کروڑوں انسانوں میں کسی “سوئی”کو تلاش کرے۔ پاکستان کی جانب سے افغان سرحد کے ساتھ پاکستانی حدود میں پہلی مرتبہ باڑ و چیک پوسٹیں اور قلعے بھی اسی لئے تعمیر کئے جا رہے ہیں تاکہ آزادنہ نقل و حرکت پر نظر رکھی جا سکی اور دونوں ممالک کی عوام کو امن نصیب ہوسکے ،لیکن کابل و امریکی حکومت کی جانب سے عدم تعاون ظاہر کرتا ہے کہ وہ پاکستان کی امن کے قیام کے لئے کئے جانے والے اقدامات کو کامیاب نہیں دیکھنا چاہتا ۔یہی وجہ ہے کہ پاکستان اپنی مدد آپ کے تحت دفاعی سرحدوں کی حفاظت کے لئے جہاں قیمتی جانوں کی قربانی دے رہا ہے تو کھربوں روپے کے اخراجات بھی پاکستانی معیشت پر بھاری بوجھ بن چکے ہیں۔پاکستان کی جانب سے افغان مہاجرین کی آڑ میں دہشت گردوں کا پناہ لینے کا بیانہ کسی مفروضات پر مبنی نہیں ہے بلکہ یہ ایک اٹل حقیقت ہے۔ افغانستان میں مضبوط ہونے والی عالمی دہشت گرد تنظیم داعش نے باقاعدہ پشاور کے قرب و جوار میں رہائش پذیر افغان مہاجرین کے کیمپوں میں بھرتی کے لئے بقاعدہ پمفلٹ تقسیم کئے تھے اور پرکشش لالچ و جھوٹے پراپیگنڈے کرکے دہشت گرد تنظیم میں شمولیت کی ترغیب دیتے رہتے ہیں۔ ان کے ساتھ تعاون میں وہ کالعدم جماعتیں بھی تعاون کررہی ہیں جنھیں فوجی آپریشن کے نتیجے میں افغانستان فرار ہونا پڑا تھا۔ کالعدم تحریک طالبان پاکستان ، جماعت الاحرار ، لشکر جھنگوی العالمی، داعش سمیت کئی دہشت گرد تنظیموں نے کابل کی سرپرستی میں افغانستان میں ڈیرے بنائے ہوئے ہیں ۔ جو پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی کے واقعات میں براہ راست ملوث ہیں۔
افغان مہاجرین اپنی روایات کی بنا پر قبائلی طرز پر یکجا رہائش پزیر ہونے کو ترجیح دیتے ہیں ۔ یہاں تک کہ اسلام آباد جیسے حساس دارالحکومت میں بھی غیر قانونی افغان بستی موجود ہے۔ کراچی ، کوئٹہ میں لاکھوں کی تعداد میں افغان مہاجرین عام پاکستانی شہریوں سے بہتر حالت میں رہتے ہیں ۔ جبکہ پنجاب و کشمیر میں بھی افغان مہاجرین کی بڑی تعداد رہائش پزیر ہے۔ لاہور، کراچی جیسے شہر میں بھی کئی بڑی بڑی کمرشل مارکیٹ میں اجارہ داری کرتے ہیں ۔ افغان مہاجرین جو چند جوڑے کپڑوں لئے پاکستان میں کسمپرسی کی حالت میں پناہ گزیں ہوئے تھے آج ہزاروں ایسے افغان مہاجرین خاندان ہیں جن کے بچے سُونے کا چمچہ منہ میں لیکر پیدا ہوتے ہیں۔ شاہانہ طرز رہائش اور مہنگی ترین تجارتی مراکز میں اربوں روپوں کے سرمایہ کار ہیں ، ایک عام پاکستانی کے ذہن میں بھی یہ سوال پیدا ہوتاہے کہ ان افغان مہاجرین کے پاس اتنی وافر مقدار میں دولت کہاں سے آگئی؟۔ غربت کے مارے ان افغان مہاجرین کے پاس ایسی کونسی گیڈر سنکھی تھی کہ چند برسوں میں ہی ان کے مالی حالات تبدیل ہوگئے ۔ جن دوکانوں کا ایڈونس چند ہزار روپے ہوتا تھا وہ لاکھوں میں دے دیتے ہیں۔ جن دوکانوں کی قیمت صرف چند لاکھ تھی وہ کروڑوں روپے میں کس طرح خرید لیتے ہیں۔ کل تک جو شہر سے کچرا ٹھاتے تھے اور تنددوروں میں روٹیاں پکاتے تھے آج ان کے پاس بیش قیمت گاڑیاں اور ہوٹل کہاں سے آگئے؟۔افغانستان اور امریکا سے تو انہیں کوئی خصوصی امداد فراہم نہیں کی جا رہی تھی کہ کروڑ پتی ہوگئے اور مہمانوں نے میزبانوں کو اپنا ملازم بنا لیا ہے ۔ یقینی طور پر جلد دولت کے حصول کے لئے غیر قانونی طریق کار اختیار کئے ہونگے ۔ دید و شنید ہے کراچی کے مضافاتی علاقوںمیں جن مکانات اور زمین کی قیمت صرف چند ہزار روپے ہوتی تھی اور غریب خاندان کے لئے صرف سر چھپانے کا ذریعہ ہوتا تھا ۔ صرف چند برسوں میں وہاں عالی شان بلڈنگ بن چکی ہیں۔ زمینوں و مکانات کی قیمتیں آسمان سے بات کررہی ہیں ، کسی عام شخص کے لئے وہاں کرایہ پر رہنا کا مطلب ایسا ہی ہے جیسا کسی پوش علاقے میں رہا جائے۔پاکستان میں اربوں روپے کمانے والے یہ مہاجرین کیا پاکستان میں ریونیو یا ٹیکس بھی ادا کرتے ہیں یا نہیں اس حوالے سے ایف بی آر بھی خاموش ہے۔ کیونکہ انکم ٹیکس سے بچنے اور اپنے کاروباری مالیاتی ذرائع بتانے سے بچنے کے لئے ان کے پاس مہاجر ہونے کا شناخت نامہ موجود ہے۔ بلکہ اب تو یہ ہورہا ہے کہ ان گنت افغان مہاجرین پاکستانی دستاویزات غیر قانونی طریقے سے حاصل کرکے یورپی ممالک چلے جاتے ہیں اور ان دستاویزات کو تلف کرکے با حیثیت افغان مہاجر اپنا اندارج کراتے ہیں ان کا جواز یہ ہوتا ہے کہ افغان طالبان ، داعش اور سیکورٹی فورسز کی بمباریوں کی وجہ سے ان کے علاقے محفوظ نہیں ہیں ۔ اس لئے انہیں انسانی ہمدردی کی بنیاد پر سیاسی پناہ دی جائے۔ گر غور کیا جائے تو لاکھوں نوجوان اپنے خاندانوں کو چھوڑ کر کیا اکیلے ہی پناہ لینے، امریکا ، جرمنی، آسٹریا ، آسٹریلیا ، برطانیہ، عرب ممالک پہنچ گئے۔ انسانی اسمگلروں کو لاکھوں روپے کی رشوت دے کر نقل مکانی کی۔ متحدہ عرب امارات میں تین لاکھ مہاجرین ، جرمنی میں ایک لاکھ26ہزار، امریکا میں 90ہزار ، مملکت متحدہ میں 56ہزار، آسٹریلیا میں 19ہزا ر ، آسٹریا میں 18ہزار ، کینیڈا میں 16ہزارسے زاید افغان مہاجرین کی موجودگی کا ہونا غیر معمولی بات ہے۔افغانستان ایشیا کا ایک ملک ہے۔ جس کے جنوب اور مشرق میں پاکستان، مغرب میں ایران، شمال مشرق میں چین، شمال میں ترکمانستان، ازبکستان اور تاجکستان واقع ہیں۔
کسی یورپی ملک خاص کر امریکا کی سرحد افغانستان سے نہیں لگتی ۔افغان مہاجرین نے ان ممالک میں جانے کے لئے یقینی طور پر ایران اور پاکستان کا راستہ اختیار کیا۔امن کا راستہ بھی پاکستان سے گزر کر افغانستان پہنچتا ہے ۔ جس کے لئے ضروری ہے کہ ہم سنجیدگی کے ساتھ اس معاملے پر ایک جامع پالیسی کو اپنا لیں ۔اقوام متحدہ کے ادارے کی جانب سے باقاعدہ اخباری اشتہارات کے ذریعے افغان مہاجرین کے واپسی کے شیڈول اور مالی مدد کے ضمن میں تعا ون کا کہا جاتا ہے ۔ افغان مہاجرین کی واپسی کا عمل اچانک شروع نہیں کیا جارہا بلکہ اس کے لئے کئی برسوں سے بار بار باقاعدہ اعلانات کئے جاتے ہیں ۔ ایک بھی افغان مہاجرین اس بات سے بے خبر نہیں ہے کہ پاکستان انہیں باعزت طریقے سے واپس افغانستان جانے کی درخواست کررہا ہے ۔ لیکن اس کے باوجود افغان مہاجرین کی بڑی تعداد نے وتیرہ بنا لیاہے کہ وہ نارا کارڈ کی سہولت سے امداد وصول کرکے افغانستان چلے جاتے ہیں لیکن تھوڑے ہی عرصے میں واپس پاکستان آجاتے ہیں۔
کچی گنجلگ آبادیاں اور کیمپ کسی بھی مطلوب دہشت گرد یا شدت پسند کے لئے محفوظ پناہ گاہ ہونا قطعی خارج از امکان نہیں ہے۔ پاکستان کے چیف آف آرمی اسٹاف تسلیم کرچکے ہیں کہ افغان جنگ کے حوالے سے چالیس برس قبل اختیار کی جانے والی پالیسی غلط تھی ۔ حکومت بھی اس بات کا اعتراف کرتی ہے کہ پرائی جنگ میں پاکستان کو غیر جانبدار رہنا چاہیے تھا ۔ سیاسی جماعتیں کہہ چکی تھی کہ پرائے گھر میں آگ لگی تو اس کے شعلوں سے اپنا گھر بھی نہیں بچے گا ۔ آج ثابت ہو رہا ہے کہ پاکستان نے ڈھائی سو ارب ڈالر کین ناقابل ِ تلافی نقصان ، 60ہزارقیمتی قربانیوں دینے کے باوجود سوائے بد امنی و دہشت گردی کا تحفہ ہی پایا ہے۔افغان مہاجرین ایک اسلامی روایات اور خطے میں سینکڑوں برس کی مساوی ثقافتی اقدار کے ناطے ہمارے بھائی ہیں ۔ لیکن یہ بھی لمحہ فکریہ ہے کہ پاکستان پر جو افتاد پڑی ہوئی ہے اور عالمی طور پر سخت دبائو کا سامنا ہے اس کے اثرات کو زائل کرنے کے لئے افغان مہاجرین کی جانب سے عالمی رائے عامہ بدلنے کے لئے کوئی اقدام نہیں اٹھایا گیا ، پاکستان کی حمایت اور مہمان نوازی کے حوالے سے کردار کو تسلیم کرنے کے بجائے پاکستان پر الزامات کو وتیرہ بنا لیا گیا ہے ۔ بلا شبہ مہاجرین کی نئی نسل پاکستان میں پروان چڑھی ہے اور اپنے وطن نہیں گئی ہوگی ، لیکن مہاجرین کا واپسی کا سفر اپنا وطن ہی ہوتا ہے۔ افغانستان میں کابل حکومت اپنے زیر انتظام علاقوں میں انہیں پناہ دے سکتی ہے ۔ ان کے معاشرتی مسائل کو حل کرنے کے لئے اربوں ڈالرز ملتے ہیں ۔ آٹے دال کا بھائو انہیں بخوبی معلوم ہے ۔ بھارت کی زبان اپنے منہ میں رکھ کر دشنام طرازی اور الزام تراشی عادت ِ ثانیہ بن چکی ہے۔امریکا کے بلند بانگ دعوے آسمان کو چھو رہے ہیں ۔ ان حالات میں لاکھوں مہاجرین بھی پاکستان میں صرف دولت کما رہے ہیں ، لیکن کابل حکومت کی زبان درازیوں کے خلاف لب نہیں کھولتے ۔ پاکستان سے اظہار یک جہتی کے لئے عملی مظاہرہ ان کی جانب سے دیکھنے میں نہیں آیا ۔ افغان مہاجرین کے عدم تعاون کے باوجودپاکستان نے انتہائی ذمے داری کا مظاہرہ کیا ہے۔مہاجرین کو واپس جانے کے لئے ذہنی طور پر تیار ہونا چاہیے ۔ پاکستان کے خلاف ہرزہ سرائی کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ، یہ کوئی جواز نہیں کہ افغان مہاجرین کا اربوں روپے کا سرمایہ لگا ہوا ہے۔
پاکستان میں ہی رہ کر کمایا تھا تو پاکستان کے قانون کے مطابق عمل کریں ۔ قانونی سرمایہ ہے تو پھر پاکستان میں غیر ملکی تاجروں کی طرح باقاعدہ طریقہ کار اختیار کرلیں ا ن کی املاک و کاروبار پر کوئی قابض نہیں ہوگا ۔ رشتے داری انہوں نے اپنے رشتے داروں میں ہی کیں ہیں ، معدودے چند ہی ایسے ہونگے جنھوں نے اپنی رشتے داریاں کسی دوسری لسانی قومیت سے طے کی ہوں ۔ یہ تاثر دینا غلط ہے کہ افغان مہاجرین نے پاکستانیوں سے شادیاں کیں ہیں ، افغان مہاجرین اپنی روایات کے مطابق اپنے قبائل میں ہی رشتے طے کرتے ہیں ۔ تاہم کسی پاکستانی سے بھی رشتے داری کی ہے تو اس کے لئے قانون میں گنجائش موجود ہے ۔ اپنی شہریت پاکستانی بنانے کے لئے بھی قانون موجود ہے ۔ لیکن اس حقیقت کو تسلیم کرنا ہوگا کہ ہیروئین و کلا شنکوف کلچر پاکستان کو کافی نقصان دہ گیا ہے لیکن جو حالات و عالمی دبائو اور امریکی فرمائشی پروگرام چل رہا ہے ۔ اس کے نقصانات سے پاکستان کی بقا وسلامتی کو ہی خطرات لاحق ہوگئے ہیں۔ افغان مہاجرین کا مزید پاکستان میں نا خود ان کے لئے خطرات سے خالی نہیں ہے ۔ کسی بھی امریکا مخالف کی موجودگی کی اطلاع پر ڈرون حملے اور آپریشن میں قیمتی جانوں کا نقصان ان کے لئے دردناک بن سکتا ہے ۔ پاکستانی عوام نہیں چاہتی کہ چالیس برس تک جن کی مہمان نوازی کی اور بھائیوں سے بڑھ کر رکھا ،وہ کوئی بد گمانی رکھیں ۔ پاکستان کی تمام قومیتیں پختون ولی کو نہیں سمجھ سکتی لیکن افغان مہاجرین تو پختون ولی کو سمجھتے ہیں ۔ انہیں اب حتمی فیصلہ کرلینا چاہیے ۔ پاکستان عوام کی مشکلات کا ادارک کرنا بھی ان کا فرض ہے۔ پاکستان کو مزید آزمائش میں نہ ڈالنا پختون قوم کے مفاد میں ہے۔