پشاور (جیوڈیسک) پاکستان اور بالخصوص خیبر پختونخوا میں رہائش پذیر ڈھائی ملین افغانوں نے روس میں جاری مذاکرات کے بارے میں ملے جلے رد عمل کا اظہار کیا ہے۔ نوجوان ان مذاکرات کو قیام امن کے لیے نیک شگون قرار دے رہے ہیں۔
پاکستان میں رہائش پذیر افغان نوجوانوں کا موقف ہے کہ افغانستان میں گزشتہ 17 سال سے موجود حکومتیں قیام امن اور افغانستان کی تعمیر نو میں ناکام رہی ہیں، یہاں تک کہ دیگر ممالک میں پناہ گزین کو بھی اپنے ملک واپس لانے کے لیے موثر اقدامات نہ کر سکیں۔ دوسری جانب سینیئر افغانوں باشندوں کا کہنا ہے کہ امریکی اور اتحادی افواج کے انخلا کی صورت میں افغانستان میں خانہ جنگی کے خدشات موجود ہیں اور روس میں ہونے والے مذاکرات کے لیے حکومتی گروپ کو نظر انداز کرنے سے اس بات چیت اور مذاکرات کی کامیابی کے امکان کم ہی نظر آتے۔
خیبر پختونخوا میں رہائش پذیر زیادہ تر افغان باشندے کاروبار سے وابستہ ہیں۔ گزشتہ کئی سالوں سے یہاں مقیم رجسٹرڈ اور غیر رجسٹرڈ افغان شہری مشکلات کا سامنا کررہے ہیں۔ اب تک لاکھوں باشندے واپس افغانستان جا چکے ہیں لیکن وہاں موجود بدامنی کی وجہ سے یہاں مقیم لاکھوں افغان واپس جانے کے لیے تیار نہیں۔
اس بستی میں افغان مہاجرین کے لگ بھگ سات سو خاندان آباد ہیں۔ بستی کے رہائشی شمع گل پچھلے سینتیس سال سے پاکستان میں رہائش پذیر ہیں۔ اس بستی میں وہ پچھلے چھ سال سے مقیم ہیں۔ گل کے مطابق بستی انتہائی برے حال میں ہے اور بارش کے موسم میں ہر طرف پانی کھڑا ہو جاتا ہے۔ ایک اور مسئلہ پکی سڑک تک رسائی کا بھی ہے۔ بستی جس علاقے میں ہے، وہ کسی پکی شاہراہ سے کافی فاصلے پر ہے۔
اس سلسلے میں ڈوئچے ویلے نے جب پشاور میں ایک معروف افغان کاروباری شخصیت عبدالرحمان سے بات کی تو ان کا کہنا تھا، ’’امریکی نمائندہ زلمے خلیل زاد خود بھی کہتے ہیں کہ یہ ابتدائی مرحلہ ہے تو میری نظر میں ان مذاکرات سے زیادہ توقعات اس لیے وابستہ نہیں کرنی چاہیے کہ ایک بڑے گروپ (حکومت)کو نظر انداز کیا گیا ہے۔ خلیل زاد کی طرح افغان حکومت بھی ان مذاکرات سے مطمئن نہیں۔ حکومتی گروپ میں بھی وار لارڈز موجود ہیں انہیں نظر انداز کرنے سے افغانستان میں قیام امن کے امکانات کم نظر اتے ہیں۔‘‘
عبدالرحمان کا مزید کہنا تھا،’’جن عالمی قوتوں کے مفادات افغانستان میں ہیں وہ ایسے ہی گروپوں کو سپورٹ کرنے کے لیے متحرک ہوسکتے ہیں اوراس بات کے امکان کو رد نہیں کیا جاسکتا کہ ایک بار پھر افغانستان میں جنگ جو گروپ متحرک ہوں۔ افغانستان میں امن کے آثار تب سامنے ائیں گے جب فریقین جنگ بندی کا اعلان کریں۔ ایک جانب امن کے قیام کے لیے مذاکرات جاری ہیں تو دوسری جانب ایک دوسرے پر حملے کیے جارہے ہیں۔‘‘
خیبر پختونخوا کے دارالحکومت پشاور کی مشہور مارکیٹ،’کارخانو بازار‘ میں ایک افغان مہاجر کھجور بیچ رہا ہے۔ پاکستان میں ان افغان مہاجرین پر اپنا کاروبار کرنے پر کوئی پابندی عائد نہیں ہے۔
پشاور میں کاروبار اور تعلیم کے سلسلے میں مقیم افغان نوجوان ان مذاکرات سے انتہائی پُر امید نظر آتے ہیں۔ پشاور کی افغان مارکیٹ میں کاروبار کرنے والے ایک نوجوان احمد علی کا کہنا ہے، ’’پہلی بار امریکا اس بات پر رضا مند ہوا ہے کہ وہ مذاکرات کی کامیابی کے بعد فوج نکالنے کے لیے تیار ہے اور افغانستان میں متحرک مضبوط قوتوں کا یہ مطالبہ رہا ہے تو ایسے میں ہمیں امید ہے کہ افغانستان میں ان بات چیت اور مذاکرات کے نتیجے میں امن قائم ہوگا۔‘‘
پشاور میں بڑی تعداد میں افغان نوجوان زیر تعلیم ہیں ان میں دشت نگری میں رہائش پذیر دولت خان نے ڈوئچے ویلے کو بتایا، ’’مذاکرات سے لگتا ہے کہ 17 سالہ جنگ ختم ہوجائے گی۔ افغان جنگ سے تنگ آ چکے ہیں، ہم بھی اس انتظار میں ہیں کہ اپنے ملک جائیں اور اپنی پڑھائی مکمل کر کے ملک کی تعمیر نو میں اپنا کردار ادا کریں۔
جو لوگ اس وقت اقتدار میں ہیں انہیں ان افغانوں کی مشکلات کا اندازہ کرتے ہوئے مذاکرات کو تسلیم کرنا چاہیے۔ افغانوں کی کئی نسلیں اس چار دہائیوں کی جنگ میں تباہ ہوچکی ہیں اب وقت آ چکا ہے کہ عالمی قوتیں افغانستان میں قیام امن کے لیے مؤثر کوشش کرے۔ ان مذاکرات کی تسلسل سے ہمیں امید ہے کہ افغانستان میں امن آئے گا۔‘‘
پاکستان میں مقیم زیادہ تر افغان تجارت سے وابستہ ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ افغانستان میں امن ہوجائے تو کسی چیز کی کمی نہیں ہے۔ ہم اپنا کاروبار فوری طور پر افغانستان شفٹ کریں گے۔ ڈوئچے ویلے نے افغان امور کے ماہر گوہر علی خان سے روس میں ہونے والے مذاکرات کے حوالے سے بات کی تو ان کا کہنا تھا، ’’چار دہائیوں سے طاقتور قوتیں افغانستان میں ایک دوسرے کے خلاف نبرد آزما ہیں اور اس میں نقصان افغانستان اور افغانوں کا ہو رہا ہے۔
یہ مسئلہ افغانوں نے خود مل بیٹھ کر حل کرنا ہوگا اور ہمسایہ ممالک نے انہیں سپورٹ کرنا ہوگا۔ پورے وسط ایشیا کے امن کا دار ومدار افغانستان میں قیام امن پر ہے۔
روس میں ہونے والے مذاکرات فریقین اگر کسی حتمی نتیجے پر پہنچ جائیں تو ان معاہدوں پر عمل درآمد کو یقینی بنانے کے لیے تمام سٹیک ہولڈر (ہمسایہ ممالک) کی ایک کمیٹی بنانا ہوگی۔ ان ممالک میں امریکا، پاکستان، ایران، چین اور دیگر ممالک شامل ہوں تاکہ امن معاہدے پر عمل درآمد کو یقینی بنایا جا سکے۔‘‘