کابل (اصل میڈیا ڈیسک) اطلاعات ہیں کہ امریکا اور افغان طالبان متوقع طور پر انتیس فروری کو ایک حتمی امن سمجھوتے پر دستخط کریں گے۔ اس ڈیل کے بعد کی صورت حال پر ابھی بھی دھند چھائی ہے کہ آیا حقیقی امن کا قیام ممکن ہے۔
امن ڈیل سے ایسی امیدوں کو تقویت حاصل ہوئی ہے کہ امریکا کی طویل ترین جنگ اپنے منطقی انجام کو پہنچنے والی ہے۔ اب اس ڈیل پر دستخط کیے جانے سے قبل سات روزہ تشدد ختم کرنے کے عبوری معاہدے پر سب کی نگاہیں جمی ہوئی ہیں کہ ان ایام میں جنگ بندی کا احترام ہی مستقبل کے امن معاہدے کا رخ متعین کرے گا۔
یہ بھی سوال گردش میں ہے کہ اگر کوئی عسکریت پسند بارودی جیکٹ کو دارالحکومت کابل میں پہنچ کر اڑا دے اور کئی انسانی جانیں اس کی لپیٹ میں آ جائیں تو امریکی رد عمل کیا ہو گا۔ اسی طرح اگر امریکی جنگی جہاز ‘اسلامک اسٹیٹ‘ کے ٹھکانوں پر بمباری کریں تو پھر طالبان کا جواب کیا ہو گا۔ اس سات روزہ عبوری ڈیل پر ہفتہ بائیس فروری سے عمل شروع ہو گیا ہے۔
قومی سلامتی کی افغان کونسل کے ترجمان جاوید فیصل نے بھی تصدیق کی ہے کہ ابتدائی طور پر یہ اتفاق رائے سات روز کے لیے ہے۔ یہ پیش رفت ایک ایسے موقع پر سامنے آئی ہے، جب واشنگٹن اور افغان طالبان کے درمیان امن معاہدہ طے پانے کی تاریخ تک کا اعلان کیا جا چکا ہے۔ امریکی حکام اور طالبان کے مابین براہ راست بات چیت کا سلسلہ سن 2018 میں شروع ہوا تھا۔
امريکی حکام اور طالبان کے مابین براہ راست بات چیت کا سلسلہ سن 2018 میں شروع ہوا تھا۔
امریکی تھنک ٹینک سینٹر برائے اسٹریٹیجک اور انٹرنیشنل اسٹڈیز کے سینیئر مشیر سیٹ جونز کا کہنا ہے کہ مجموعی صورت حال فریقین کے لیے چیلنج کی حیثیت رکھتی ہے کیونکہ بعض عناصر ایسے ہیں جو اس جنگ بندی کے حامی نہیں ہیں۔ جوننز کے مطابق ایسے عناصر میں طالبان کے بعض اندرونی حلقے، حقانی نیٹ ورک اور مقامی ملیشیا کمانڈرز ہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ عبوری جنگ بندی کے دوران پرتشدد واقعات کو انفرادی سطح پر دیکھ کر کوئی بھی فیصلہ کیا جائے گا۔ جونز کے پرتشدد صورت حال پیدا ہونے پر امریکی فوج اور خفیہ اداروں کی معلومات پر کیے جانے والے بروقت فیصلے کلیدی حیثیت کے حامل ہوں گے۔
امریکی حکام نے بھی واضح کیا کہ ایسے عناصر موجود ہیں جو امن ڈیل کو نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ ان کے مطابق ایسے حلقے افغان طالبان کی اپنی صفوں میں موجود ہیں۔ سات روزہ عبوری ڈیل اور پھر امن معاہدے پر دستخط کے بعد امریکی فوجی حکام، افغان اہلکار اور طالبان ایک واسطے کے ذریعے سکیورٹی حالات پر مشترکہ طور پر نگاہ رکھیں گے اور کسی بھی غیر معمولی صورت حال میں وہ رابطےہ قائم کر کے بات چیت بھی کرسکیں گے۔
امريکی وزير خارجہ مائيک پومپيو اور طالبان کے ايک بيان ميں اس بات کی تصديق کی گئی ہے کہ فريقين ميں امن معاہدے پر دستخط کرنے کی تاریخ پر اتفاق ہو چکا ہے۔ امن معاہدے پر دستخط خلیجی ریاست قطر کے دارالحکومت دوحہ ميں انتيس فروری کو کيے جائيں گے۔ پومپيو نے کہا کہ معاہدے پر دستخط کے بعد معاملات آگے بڑھیں گے اور نتیجتاً افغان طالبان اور کابل حکومت کے درميان مذاکرات کا آغاز ہو سکتا ہے۔