افغانستان (اصل میڈیا ڈیسک) کابل میں ایک مسجد پر حملے کے بعد طالبان نے داعش کے ایک مشتبہ ٹھکانے پر کارروائی کرتے ہوئے اسے تباہ کر دینے کا دعویٰ کیا ہے۔
طالبان فورسز نے دارالحکومت کابل میں اتوار کو ایک مسجد کے باہر ہونے والے بم دھماکے کے چند گھنٹوں بعد دہشت گرد تنظیم داعش کے ایک مشتبہ ٹھکانے پر حملہ کر کے اسے تباہ کرنے اور متعدد جنگجوؤں کو ہلاک کر دینے کا دعویٰ کیا ہے۔
کابل میں عید گاہ مسجد کے باہر گزشتہ روز ہونے والے بم دھماکے کے نتیجے میں پانچ شہری ہلاک ہوئے تھے۔ اس دہشت گردانہ کارروائی کی ذمہ داری کسی نے قبول نہیں کی تھی لیکن فوری طور سے ‘اسلامک اسٹیٹ‘ یا داعش کے ہی اس بم حملے میں ملوث ہونے کا شبہ کیا جانے لگا تھا۔ رواں برس اگست کے وسط میں طالبان کے حکومت پر قبضے کے بعد سے اس گروپ پر حملوں میں اضافہ ہوا ہے۔طالبان کا داعش کے جنگجوؤں کے خلاف کریک ڈاؤن شروع
پیر کو کابل کی ایک مسجد میں طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کی والدہ کے انتقال کے سوگ میں طالبان اہلکار تعزیت کے لیے جمع ہوئے۔ اس موقع پر مجاہد نے ایک بیان میں کہا کہ طالبان فورسز نے کابل کے نواح میں خیر خانہ نامی علاقے میں قائم ‘اسلامک اسٹیٹ آپریشن سینٹر‘ پر کارروائی کی۔ طالبان کے ترجمان نے تاہم یہ نہیں بتایا کہ آیا اس آپریشن میں آئی ایس یا داعش کے کتنے باغی مارے گئے ہیں اور یہ بھی نہیں کہا گیا کہ آیا اس آپریشن میں طالبان کا کوئی اہلکار زخمی یا ہلاک ہوا ہے۔
کابل میں اتوار کو ہونے والا بم دھماکہ افغانستان سے 31 اگست کو انتہائی افراتفری اور جلد بازی میں امریکی فوجی انخلا کے حتمی مرحلے کے بعد طالبان کے قابض ہونے کے بعد سے اب تک کا خونریز ترین دھماکہ تھا۔امریکا کا داعش کے خلاف طالبان کے ساتھ مل کر کام کرنے کا عندیہ
26 اگست کو کابل ایئرپورٹ کے باہر ہونے والی بمباری کی ذمہ داری دولت اسلامیہ یا داعش نے قبول کی تھی۔ دہشت گردی کے ان واقعات میں 169 سے زائد افغان شہری اور 13 امریکی فوجی ہلاک ہوئے تھے۔ تب ہزاروں کی تعداد میں شہری کابل ایئرپورٹ کی طرف اس امید میں بڑھ رہے تھے کہ شاید انہیں فرار کا کوئی راستہ مل جائے اور وہ افغانستان سے نکل سکیں۔ 2019 ء میں افغانستان کے مشرقی علاقے میں داعش یا آئی ایس کے خلاف امریکا کی طرف سے شدید نوعیت کی کارروائی کی گئی تھی۔ امریکی فوج نے داعش کے کئی ٹھکانوں پر بھاری بمباری کی تھی جس کے نتیجے میں اس علاقے میں داعش جنگجو کافی کمزور پڑ گئے تھے۔ تاہم ان واقعات کے بعد 2020ء دوسرا موقع تھا جب اس دہشت گرد گروپ نے دوبارہ افغانستان میں اپنی قوت کا مظاہرہ کرنا شروع کیا۔ 2020 ء میں ہی افغانستان کے میٹرنٹی یا زچگی کے ایک ہسپتال پر ہولناک حملہ ہوا تھا، جس کے نتیجے میں 24 افراد ہلاک ہوئے تھے، جن میں نوزائیدہ بچے بھی شامل تھے۔ داعش پر ہی اس حملے میں ملوث ہونے کا الزام عائد کیا گیا تھا۔ اس کے بعد رواں برس افغانستان کے ایک اسکول پر ہونے والے حملے کا ذمہ دار بھی داعش ہی کو ٹھہرایا گیا تھا۔ یہ اسکول شیعہ مسلم برادری کے اکثریتی علاقے دشت برچی میں قائم تھا اور اس حملے میں 80 سے زائد طلبا ہلاک ہوئے تھے۔
اتوار 3 اکتوبر کو کابل کی مسجد کے باہر ہونے والے بم دھماکے سے طالبان حکومت کو درپیش چیلنجز میں واضع اضافہ ہوا ہے۔ طالبان اپنی 20 سالہ بغاوت کے دوران بارہا دہشت گردانہ حملے اور عدم استحکام پھیلانے کا سبب بننے والی کارروائیاں کرتے رہے ہیں تاہم اب خود انہیں اپنے حریف عسکریت پسند گروپ کی بپا کی ہوئی شورش اور دہشت گردی پر قابو پانے کے ضمن میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ یہ سب کچھ ایک ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب افغانستان بہت حد تک غیر ملکی امداد کے بغیر اپنے قومی معاشی بحران سے نمٹنے کی کوشش کر رہا ہے۔ طالبان حکومت نے گرچہ امریکی حمایت یافتہ حکومت کو گرا دیا مگر اب وہ غیر ملکی امداد کے بغیر اپنے ملک کی معاشی اور معاشرتی زبوں حالی سے نمٹنے کے لیے خود کو تنہا محسوس کر رہے ہیں اور انہیں بہت بڑے بڑے چیلنجز کا سامنا ہے۔