افغانستان (جیوڈیسک) امریکہ افغان طالبان کی طرف سے جاری کی گئی اس وڈیو کا جائزہ لے رہا ہے جس میں ایک کینیڈین شخص اور ان کی امریکی اہلیہ کو اپنی رہائی کے لیے متعلقہ حکومتوں سے مطالبہ کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔
کینیڈین شہری جوشوا بوئل اور ان کی امریکی اہلیہ کیٹلان کولمین کو طالبان نے 2012ء میں اغوا کیا تھا۔
اس وڈیو میں یہ دونوں کینیڈا اور امریکہ کی حکومتوں سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ وہ افغان حکومت پر دباؤ ڈالیں کہ وہ طالبان قیدیوں کو سزائے موت دینے کی اپنی پالیسی تبدیل کرے بصورت دیگر ان دونوں کو اغوا کار قتل کر دیں گے۔
کیٹلان اغوا کے وقت حاملہ تھیں اور بتایا جاتا ہے کہ طالبان کی تحویل کے دوران انھوں نے دو بچوں کو جنم دیا۔
امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان جان کربی نے منگل کو واشنگٹن میں معمول کی نیوز بریفنگ میں بتایا تھا کہ حکام اس وڈیو کی صداقت کے لیے اس کا جائزہ لے رہے ہیں۔
“ہم کیٹلان اور ان کے خاندان کی فلاح کے لیے متفکر ہیں اور ہم انسانی ہمدردی کی بنیاد پر ان کی فوری رہائی پر زور دیتے ہیں۔”
افغان طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے خبر رساں اداروں کو بتایا کہ مغوی ان کے قبضے میں ہیں اور ان کی صحت بھی ٹھیک ہے۔ ان کے بقول یہ وڈیو نئی نہیں اور یہ دراصل گزشتہ سال ریکارڈ کی گئی تھی۔
اگر یہ وڈیو درست ہے اور گزشتہ سال بھی ریکارڈ کی گئی ہو تو یہ 2013ء کے بعد پہلا موقع ہے کہ مغوی اس طرح وڈیو میں دکھائی دیے ہیں۔
کینیڈا کے عالمی امور کے ترجمان مائیکل او شوگنسی نے منگل کو ایک بیان میں کہا تھا کہ وہ اس وڈیو کے بارے میں آگاہ ہیں لیکن حکومت اس پر مزید کوئی تبصرہ یا کوئی معلومات فراہم نہیں کرے گی کیونکہ اس سے بیرون ملک کینیڈا کے شہریوں کی زندگی کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔
منگل کو یو ٹیوب پر جاری ہونے والی اس وڈیو میں بوئل کا کہنا تھا کہ ان کے اغوا کار “اس خیال سے خوفزدہ ہیں کہ ان کی اپنی موت ان کی طرف بڑھ رہی ہے اور وہ یہ کہتے ہیں کہ وہ اس کا بدلہ ان کے خاندان سے لیں گے۔”
کیٹلان وڈیو میں کہہ رہی ہیں کہ “مجھے یہ معلوم ہے کہ میرے خاندان کے لیے یہ سننا بہت خوفناک ہے کہ یہ لوگ (اغوا کار) کس حد تک جانے کو تیار ہیں۔”
رواں سال جولائی میں کیٹلان کے والدین نے طالبان سے درخواست کی تھی کہ وہ انھیں رہا کر دیں۔
ایک وڈیو پیغام میں انھوں نے طالبان کے نئے سربراہ ملا ہبت اللہ اخونزادہ کو مخاطب کرتے ہوئے مطالبہ کیا تھا کہ وہ “رحم کریں” اور ان کے خاندان کو رہا کر دیں۔
یہ جوڑا 2012ء کے موسم گرما میں روس، قازقسان، تاجکستان اور کرغزستان سے ہوتا ہوا افغانستان پہنچا تھا جہاں سے یہ اچانک لاپتا ہو گیا اور بعد ازاں معلوم ہوا کہ انھیں طالبان نے اغوا کر لیا ہے۔
افغانستان میں اغواء برائے تاوان کے واقعات حکومت کے لیے ایک بڑا چیلنج ہیں، افغانستان میں سرگرم عسکریت پسند پیسے کے حصول کے لیے بھی لوگوں کو اغوا کرنے کی وارداتوں میں ملوث رہے ہیں۔
رواں ماہ ہی کابل میں قائم امریکن یونیورسٹی سے وابستہ ایک آسٹریلوی اور ایک امریکی شہری کو اغوا کیا تھا، یہ دونوں یونیورسٹی میں پڑھاتے تھے اور تاحال اُنھیں بازیاب نہیں کروایا جا سکا ہے۔
افغانستان میں سلامتی کی بگڑتی ہوئی صورت حال اور اغوا کی وارداتوں کے پیش نظر امریکہ اور آسٹریلیا سمیت متعدد ممالک نے اپنے شہریوں کو افغانستان کے غیر ضروری سفر سے اجتناب کرنے کا مشورہ دے رکھا ہے جب کہ جن ممالک کے سفیر یا دیگر شہری کابل اور افغانستان کے دیگر علاقوں میں موجود بھی ہیں اُنھیں بھی نقل و حرکت کرتے ہوئے نہایت احتیاط سے کام لینے کی ہدایات جاری کی جاتی رہی ہیں۔