کابل (جیوڈیسک) افغان طالبان نے اپنے لیڈر ملا عمر کی تفصیلی سوانح حیات شائع کر دی، یہ اقدام بظاہر عسکریت پسند حلقوں میں دولت اسلامیہ کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کا توڑ لگ رہا ہے، رپورٹس کے مطابق حالیہ مہینوں میں طالبان کو دولت اسلامیہ کی وجہ سے کئی ساتھیوں کو منحرف ہوتے دیکھنا پڑا ہے۔
کچھ عسکریت پسندوں نے 2001 میں افغانستان پر امریکی حملے کے بعد سے منظر عام سے غائب ملا عمر پر عدم اطمینان کا اظہار کیا ہے، طالبان کی مرکزی ویب سائٹ پر شائع ہونے والی سوانح عمری ملا عمر کو خراج تحسین ہے، اس میں کہا گیا ہے کہ وہ اب بھی جہادی سرگرمیوں میں بھرپور انداز سے متحرک ہیں، سوانح حیات کے مطابق دشمنوں کی مسلسل ٹریکنگ کے باوجود ملا عمر کے معمولات میں کسی قسم کی مداخلت نہیں ہوئی، وہ اسلامی ریاست کے رہنما کے طور پر جہادی سرگرمیوں کو منظم کر رہے ہیں، وہ پورے جذبے سے ظالم غیرملکی دراندازوں کے خلاف سرگرمیوں کی نگرانی کرتے ہیں، یہ بھی بتایا گیا ہے کہ آر پی جی سیون لانچر ملا عمر کا پسندیدہ ہتھیار ہے۔
اس میں ان کی ذاتی اور خاندانی زندگی کا بھی ذکر ہے جس نے سکیورٹی تجزیہ کاروں کو حیران کر دیا ہے۔ امریکی محکمہ خارجہ نے ان کے سر پر ایک کروڑ ڈالر کا انعام رکھا ہوا ہے۔ ذرائع کے مطابق وہ حسِ مزاح کے مالک ہیں۔ سوانح عمری میں کہا گیا ہے کہ ملا عمر کہاں ہیں، یہ کوئی نہیں جانتا لیکن وہ افغانستان اور دنیا بھر میں روزانہ کی بنیاد پر پیش آنے والے واقعات سے مطلع رہتے ہیں۔
ملا عمر متحمل مزاج کے ہیں، انہیں جلد غصہ نہیں آتا، وہ ملنسار ہیں، کبھی خود کو اپنے ساتھیوں سے بڑا نہیں سمجھتے۔ ان کے پاس گھر ہے نہ ہی غیرملکی بینک اکاؤنٹ۔ سوانح عمری کے مطابق ملا عمر کی پیدائش 1960ء میں قندھار کے ضلع خاکریز کے چاہِ ہمت نامی گاؤں میں ہوئی تھی۔ طالبان ان کا ذکر ملا محمد عمر ’مجاہد‘ کے نام سے کرتے ہیں۔ وہ ہوتک قبیلے کی شاخ تومزئی سے ہیں۔
ان کے والد مولوی غلام نبی عالم اور سماجی شخصیت تھے۔ سوویت فوجوں کے افغانستان پر حملے کے بعد ملا عمر مذہبی ذمہ داری کو نبھانے کے لیے مدرسے میں جاری تعلیم چھوڑ کر جہادی بن گئے۔ 1983ء سے 1991ء کے درمیان فوجی کارروائیوں میں روسی فوجیوں سے لڑتے ہوئے ملا عمر چار بار زخمی ہوئے، ان کی دائیں آنکھ ضائع ہو گئی۔