افغان طالبان نے ہزاروں استحصالی ارکان اپنی صفوں سے نکال دیے

Afghan Taliban

Afghan Taliban

افغانستان (اصل میڈیا ڈیسک) افغانستان میں حکمران طالبان تحریک نے کہا ہے کہ اس نے اپنے تقریباﹰ تین ہزار ارکان کو ناجائز اور استحصالی اقدامات کے باعث سزا کے طور پر اپنی صفوں سے نکال دیا ہے۔ یہ بات ملکی وزارت دفاع کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے بتائی۔

ایک سرکردہ حکومتی اہلکار کے مطابق ایسا طالبان کے گزشتہ برس موسم گرما میں اقتدار میں آنے کے بعد شروع کیے گئے جواب دہی کے ملک گیر عمل کے دوران کیا گیا۔ کابل میں افغان وزارت دفاع کے ایک پینل کے سربراہ لطیف اللہ حکیمی نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ مجموعی طور پر 2840 ارکان کو طالبان تحریک سے نکالا گیا۔ انہوں نے کہا کہ یہ افراد افغانستان میں اسلامی حکومت کا نام بدنام کر رہے تھے اور طالبان کی اپنی صفوں میں صفائی کے اس عمل کا مقصد مستقبل میں بہتر فوج اور مؤثر پولیس کی تشکیل ہے۔

عوام سے ماضی کے مقابلے میں نرمی کا وعدہ
طالبان نے ہندوکش کی اس ریاست سے امریکا اور مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کے فوجی دستوں کے حتمی انخلا کے بعد اور مجموعی طور پر اپنی 20 سالہ مسلح جدوجہد کے بعد ایک بار پھر اقتدار سنبھالا تھا۔ اس موقع پر گزشتہ برس اگست میں ملک میں نئی طالبان انتظامیہ کی طرف سے کہا گیا تھا کہ وہ اپنے 1996ء سے لے کر 2001ء تک جاری رہنے والے پہلے دور اقتدار کے مقابلے میں اپنے طرز حکومت میں نرمی لائے گی۔

تئیس ملین افغان بھوک کا شکار
عالمی ادارہ برائے خوراک کے مطابق چالیس ملین آبادی میں سے 23 ملین شہری شدید بھوک کا شکار ہیں۔ ان میں نو ملین قحط کے بہت بہت قریب ہیں۔

تقریباﹰ اسی وقت طالبان کی حکومت نے ایک ایسا کمیشن بھی قائم کر دیا تھا، جس کا کام اس تحریک کے ایسے ارکان کی نشاندہی تھا، جو اس موومنٹ کے طے کردہ ضوابط کی خلاف ورزی کے مرتکب ہوئے ہوں۔

منشیات کے کاروبار اور کرپشن میں ملوث
لطیف اللہ حکیمی کے مطابق اب تک اس تحریک سے سزا کے طور پر جن ہزاروں افراد کو نکالا جا چکا ہے، ان کے خلاف استحصالی رویوں، بدعنوانی میں ملوث ہونے، منشیات کے کاروبار کا حصہ ہونے اور عام شہریوں کی نجی زندگی میں مداخلت جیسے الزامات ثابت ہو گئے تھے۔

افغانستان ميں فی الحال عورتوں کے ليے برقعہ لازمی قرار نہيں ديا گيا ہے تاہم اکثريتی خواتين نے خوف اور منفی رد عمل کی وجہ برقعہ پہننا شروع کر ديا ہے۔ طالبان سخت گير اسلامی نظريات کے حامل ہيں اور ان کی حکومت ميں آزادانہ يا مغربی طرز کے لباس کا تو تصور تک نہيں۔ تصوير ميں دو خواتين اپنے بچوں کے ہمراہ ايک مارکيٹ ميں پرانے کپڑے خريد رہی ہيں۔

حکیمی کے مطابق، ”ان میں سے کچھ کے تو اسلامک اسٹیٹ یا داعش کے ساتھ روابط بھی تھے۔‘‘ طالبان تحریک کے ان تین ہزار کے قریب ارکان کو زیادہ تر افغانستان کے 14 مختلف صوبوں میں تحریک کی صفوں سے خارج کیا گیا۔

حکیمی کے الفاظ میں، ”تحریک کی اپنی صفوں میں صفائی کا یہ عمل آئندہ بھی جاری رہے گا اور اس صفائی کا دائرہ دیگر افغان صوبوں تک بھی پھیلا دیا جائے گا۔‘‘

انسانی حقوق کے لیے سرگرم کئی تنظیموں کا الزام ہے کہ دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد سے طالبان کے کئی جنگجو افغانستان کے سابق سکیورٹی اہلکاروں کے ماورائے عدالت قتل کے مرتکب بھی ہوئے ہیں، حالانکہ طالبان کے رہنما ہیبت اللہ اخوند زادہ نے کابل پر پچھلے سال قبضے کے بعد ہر کسی کے لیے عام معافی کا اعلان کر دیا تھا۔