کراچی (جیوڈیسک) افغان ٹرانزٹ ٹریڈ اسکینڈل کے گمشدہ 28 ہزار سے زائد کنٹینروں کی تحقیقات کا دوبارہ آغاز کر دیا گیا ہے اور اس سلسلے میں قومی احتساب بیورو (نیب)نے افغان ٹرانزٹ ٹریڈسے منسلک کسٹمزکلیئرنگ ایجنٹس سے بھی تفتیش شروع کردی ہے۔
ازسرنوتفتیشی اقدام کے باعث کسٹمزکلیرنگ اور فارورڈنگ ایجنٹس میں تشویش کی لہردوڑ گئی ہے، ذرائع نے بتایاکہ قومی احتساب بیورو (نیب ) کی جانب سے نیٹوایساف کنٹینرز اسکینڈل سے متعلق کی جانے والے پچھلے تفتیشی عمل میں تاحال کراچی، پشاور اور بلوچستان کے کسی کسٹمز کلیئرنگ فارورڈنگ اور بارڈرز ایجنٹس پرالزام ثابت نہیں ہو سکے جس کی ایک وجہ یہ بھی بتائی جاتی ہے۔
کہ تفتیش کے دوران نیٹو ایساف کنٹینرز کی ترسیل میں کلیدی کردار ادا کرنے والے قومی لاجسٹک کمپنی اور پاکستان ریلوے کے متعلقہ حکام کو استثنٰی دینا تھا، پاک افغان جوائنٹ چیمبرآف کامرس اینڈ انڈسٹری کے ڈائریکٹر ضیا الحق سرحدی نے اس ضمن میں بتایاکہ سابق ممبر کسٹمز ایف بی آر حافظ محمد انیس مرحوم نے نیٹو ایساف کنٹینرز رپورٹ مرتب کی تھی جس میں 28 ہزارسے زائد کنٹینرز افغانستان کی سرحد عبور کیے بغیر پاکستان میں ہی غائب ہونے کا انکشاف کیا گیاتھا۔
جس پر سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس جسٹس (ر) افتخار محمد چوہدری نے ازخود نوٹس لیتے ہوئے قومی احتساب بیورو کو معاملے کی تحقیقات کرنے کا حکم دیا تھا جبکہ سابق وفاقی ٹیکس محتسب ڈاکٹر شعیب سڈل کی جانب سے 28 ہزار کے بجائے 7 ہزار 922 کنٹینرز کی پاکستان کے اندر گمشدگی کی رپورٹ مرتب کی گئی تھی جس میں واضح کیاگیا۔
کہ غائب ہونے والے نیٹو ایساف کنٹینرز کی تعداد 28 ہزار نہیں، نیب نے ڈاکٹر محمد شعیب سڈل کی رپورٹ پر سپریم کورٹ میں ریفرنس دائر کیا جس میں کراچی، پشاور اور بلوچستان کے کسٹمز کلیئرنگ فارورڈنگ اور بارڈرز ایجنٹس کو شامل تفتیش کیا گیا، انھوں نے بتایا۔
کہ تقریباً 2 سال کی مدت گزرجانے کے باوجود نیب کسی ایجنٹ کے خلاف ثبوت پیش نہیں کرسکا تاہم خیبر پختونخوا اور چمن کے 180 بارڈرایجنٹس کو ہرماہ 2مرتبہ پیشیاں بھگتنے کے لیے سندھ ہائی کورٹ اوراحتساب عدالت کراچی میں حاضر ہونا پڑتا ہے جس کی وجہ سے کلیئرنگ ایجنٹس کو سخت ذہنی اذیت اٹھانا پڑرہی ہے۔