تحریر: علی عمران شاہین سپرپاورز کا قبرستان کہلانے والے افغانستان کے صدر اشرف غنی نے 22 مارچ کو دورۂ امریکہ کا سفر شروع ہی کرنا تھا کہ پرواز سے پہلے فریاد کر اٹھے۔ یہ موسم گرما بہت سخت ہوگا۔ ہمارے خلاف لڑنے والے بڑی تیاری میں ہیں۔ ابھی تو موسم سرما مشکل سے گزراتھا۔اس روز افغان خفیہ ادارے نے بتایا کہ ملک کے نائب صدر عبد الرشید دوستم کے قتل کی ایک زبردست سازش انہوں نے پکڑی ہے تو بتایاگیا کہ آج یعنی 22 مارچ کو شمالی افغانستان میں جو بم دھماکہ ہوا ہے’ وہ اسی سلسلے میں تھا۔
اس دھماکے میں افغان پولیس سربراہ بھی نشانے پر تھے لیکن وہ بھی بچ نکلے۔ اس سے قبل امریکہ کے 2 بڑے اتحادیوں برطانیہ اور آسٹریلیا نے افغانستان سے ماہ مارچ 2015ء میں اپنی افواج کے انخلاء کی تکمیل پر خصوصی تقریبات منعقد کیں اور جشن منایا۔ حالانکہ افغانستان کی جنگ میں برطانیہ وہ ملک تھا جسے امریکہ کے بعد سب سے زیادہ جانی نقصان کا سامنا ہوا تو اسے سب سے زیادہ معاشی تباہی بھی ہوئی۔ یہ وہی برطانیہ ہے جو کبھی کرۂ ارض کی تن تنہا سپر پاور تھا ‘وہ اسی افغانستان میں 1842 اور 1880 میں بھی شکست کھا چکا ہے۔ اس لئے غیر جانبدار مبصرین اور تجزیہ کار اس حالیہ جنگ سے برطانیہ کی اس طرح واپسی کو تیسری شکست قرار دیتے ہیں۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ جن مقاصدکے تحت امریکہ افغانستان میں اپنے بیسیوں اتحادیوں کو لے کر داخل ہوا تھا’ ان میں سے وہ کوئی ایک بھی مقصد حاصل نہ کر سکا تھا بلکہ افغانستان میں امریکہ کی حالت یہ ہوچکی ہے کہ اس نے باقاعدہ طور پر خود اعلان کردیا ہے کہ وہ ملا محمد عمر اور ان کے ساتھی جنہیں اس نے دنیا کے مہلک ترین لاکھوں بموں سے نشانہ بنایا تھا ‘ اب یہ سب دہشت گرد نہیں ہیں۔ امریکی محکمہ خارجہ نے سال نو 2013ء کے آغاز کے ساتھ ساتھ ہی افغانستان سے بڑے پیمانے پر امریکی انخلاء کے بعد باقاعدہ طور پر 2 بڑے فیصلے سنائے۔ ایک میں کہا تھا کہ ملا محمد عمر اب امریکی ہدف پر نہیں ہیں۔ دوسرا یہ کہ افغان طالبان جن کو انہوں نے اقتدار سے بے دخل کیا تھا’ اب عالمی دہشت گرد نہیں بلکہ ایک باغی گروہ ہیں جن کے ساتھ مذاکرات بھی ہو سکتے ہیں۔ طاقت کے نشے میں چور امریکی کبھی یہ اعلان کریں گے ؟ یہ تو 14 سال سے سوچا بھی نہیں جا سکتا تھا۔
کیا یہ وہی امریکہ ہے جس نے نائن الیون کے بعد اقوام متحدہ کے ذریعے ایک قرار داد1267 منظور کروائی تھی کہ اب اس کے بعد دنیامیں القاعدہ اور طالبان (افغان) الگ سے عالمی دہشت گرد ہیں اور دنیا میں جو بھی ان سے کوئی ہمدردی رکھنے والا ہو گا’وہ ان کی فہرست میں شامل کرکے دہشت گرد قراردیا جائے گا اور پھر برسوں ایسے ہی ہوتا رہا ۔ پھرجب ا امریکہ ہی نہیں’ اس کے ساتھ اس کے سارے اتحادیوں کو لینے کے دینے پڑ گئے تو اب انہوں نے آخری حربے کے طور پر جانیں بخشوانے کے لئے اپنے ہی قاعدے کلیئے بدل لئے ہیں۔ کیا یہ وہی امریکہ نہیں ہے جس نے قطر میں خود افغانستان کے سابقہ حکمران ملا محمد عمر اور ان کے ساتھیوں سے مذاکرات کے لئے خود دفتر کھولا ہے؟ ان کے 5 اہم ساتھیوں کو اپنے ایک کمانڈر کو رہا کروانے کیلئے گوانٹا نامو سے لاکر قطر میں ان کے حوالے کیا۔
America
یہ تو محض 2 باتیں ہیں’ ورنہ امریکہ کو جو ذلت ہوئی’ وہ داستان بہت طویل ہے۔ وہی امریکہ اب اس کوشش میں ہے کہ کسی طرح بھارت کو افغانستان میں زیادہ سے زیادہ داخل کردے تاکہ اس کی سردردی کم ہو لیکن یہ سردردی بڑھتی ہی جا رہی ہے۔ امریکہ نے افغانستان میں جو کٹھ پتلی حکومت بھی تیار کی تھی’ اس کی بھی حالت پتلی ہو رہی ہے۔ یہی افغان فوج بھارت کے ساتھ ساتھ اس خطہ میں امریکہ کا سب سے بڑا سہارا تھی لیکن اس کے بارے 3 مارچ 2015ء کو خبر آئی : Between Casualities and Desertion Afghan Military Shriking Fast فرار اور قتل کے درمیان افغان فوج تیزی کے ساتھ سکڑرہی ہے کیونکہ اس کے فوجی جنہیں امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے بے پناہ پیسہ اور صلاحیتیں خر چ کرکے تیار کیا تھا’ وہ ملازمتیں چھوڑ کر فرار ہو رہے ہیں۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ اب ان میں مقابلے کی سکت نہیں اور اس کی مدد کرنے والی امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی فوجیں بھی اب ملک میں موجود نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ فروری 2015ء کے آخر تک 10 ماہ میں کٹھ پتلی افغان فوج 8.5 فیصد کم ہوچکی تھی۔
افغانستان میں امریکہ نے ملک کے عوام کو قابو اور کنٹرول میں کرنے اور افغان مجاہدین کا مقابلہ کرنے کے لئے بھارت کی طرح مقبوضہ کشمیر کے لئے گائوں کی سطح پر بنائی جانے والی ویلج ڈیفنس کمیٹیوں (VDC)کی طرز پر ہر علاقے میں ایسی کمیٹیاں بنائیں۔ ان کمیٹیوں کو بھاری ہتھیار اور بھاری تنخواہیں دی جانے لگیں لیکن تازہ ترین خبر یہ ہے کہ یہ کمیٹیاں امریکہ کے لئے الگ سے سردرد بن گئی ہیں کیونکہ انہوں نے امریکہ کے اغراض و مقاصد کو کبھی پورا نہیں کیا’ البتہ امریکہ کے دشمنوں کی مدد ضرور شروع کردی ہے۔ امریکہ کے ایک بڑے اتحادی کینیڈا نے افغان عوام کے دل جیتنے کے نام پر ان کے لئے بڑے پیمانے پر ترقیاتی منصوبے شروع کئے تھے۔ اربوں ڈالر خرچ کرکے نہریں کھودنے ‘ ہسپتال ‘ سکول اور سڑکیں تعمیر کرنے کا کام کیا لیکن اس کا بھی اسے کوئی خاطر خواہ نتیجہ نہ ملا کیونکہ اس سب کا مقصد افغان عوام کو جہاد کی محبت سے دور کرکے امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے لئے محبت پیدا کرنا تھا جس میں انہیں کوئی کامیابی نہ ملی اور اس وقت بھی افغان عوام کی جہاد اور مجاہدین سے محبت دو چند ہے۔ 20 مارچ 2015 کو مایہ ناز امریکی جریدے نیوزویک نے ایک مضمون لکھاجس کا عنوان تھا It’s High Time We Got of Afghanistan اس مضمون میں بتایا گیا کہ امریکہ نے افغان عوام کو مجاہدین سے متنفر کرنے کے لئے ہر حربہ آزمایا لیکن بات نہ بنی۔
نیوزویک لکھتاہے کہ امریکہ افغانستان سے نکل چکا ہے’ صرف اس کی لگ بھگ 10 ہزار فوج کیمپوں میں پڑی ہے۔ امریکہ اسے 2016 تک نکالنا چاہتا ہے ۔امریکہ کی سب سے بڑی کوشش یہ ہے کہ وہ کسی طرح افغان کٹھ پتلی حکومت اور افغان طالبان کے مابین کوئی مذاکرات شروع کروادے جو اب تک ممکن نہیں ہو سکا ہے۔ یقینی طور پر امریکہ اس لحاظ سے پر امید تھا کہ وہ افغانستان کے طالبان کی فتح کو باقاعدہ طور پر علی الاعلان تسلیم کرنے میں تاخیر کرے لیکن گزشتہ سال تو افغان کٹھ پتلی فوج کے لئے سب سے ہلاکت خیز سال تھا۔ امریکہ کا افغانستان میں موجود سفارتکار فرنز سٹیفن گیڈر لکھتا ہے کہ ملک کے کتنے ہی علاقے ایسے ہیں جہاں افغان فورسز داخل ہی نہیں ہو سکتیں بلکہ شہروں سے باہر بھی اکثر و بیشتر صورتحال یہی ہے۔ انہی وجوہات کی بنیاد پر امریکہ نے کئی سال پہلے ملا محمد عمر کو بارہا مختلف طرز کی پیش کشیں کی تھیں جن میں سے ایک یہ بھی ہے کہ وہ پشتون اکثریت والے پاکستان سے متصل 13 صوبوں کی حکومت سنبھال لیں اور لڑائی بند کردیں جسے انہوں نے دیگر پیش کشوں کی طرح ٹھکرا دیا تھا۔اس کے بعد اب موجودہ افغان حکومت اس طرح کی پیش کش بار بار کر رہی ہے کہ کسی طرح افغانستان کے طالبان اور مرکزی حکومت کے مابین بات چیت شروع کروا کر اور اس کے لئے انہیں حکومت میں ایک بڑا حصہ دے کر ”امن کی راہ” پر چلایاجا سکے۔ اس سارے عمل کے لئے افغان حکومت اور امریکہ ایک بار پھر اب پاکستان کی چوکھٹ پر کھڑے ہیں اور دونوں نے مل کر پاکستان سے اسی بات کی درخواستیں شروع کر رکھی ہیں کہ وہ کسی طرح ان کی افغان طالبان کے ساتھ مثبت اور نتیجہ خیز بات چیت شروع کروادے۔ پاکستان نے اس پر حامی بھری ہے اور خوشی کا اظہار کیا ہے یعنی وہی امریکہ جو نائن الیون کے فوراً بعد سے پاکستان کو دھمکیاں دیتا اور ڈراتا دھمکاتا رہتا تھا’ ایک بار پھر افغانستان کے کمبل سے جان چھڑانے کے لئے پاکستان کے ہی پائوں میں پڑا ہوا ہے تو افغان حکومت سے بھی وہ یہی عمل کر وا رہا ہے۔افغانستان کے نئے منظر نامے میں جہاد کے ساتھ پاکستان کا ایک نیا اور موثر رخ اس کے سامنے آیا ہے جو اس بات کی دلیل بھی ہے کہ افغانستان میں جیسے بھی ہو’ حکومت وہی بنے اور چلے گی جو پاکستان چاہے گا۔ یہ سب جہاد کے ساتھ اس مملکت خداد کی عظیم کامیابی ہے۔