افغانستان میں مزاحمتی مسلح جماعت امارات اسلامیہ افغانستان (افغان طالبان) نے غزنی شہر پر منظم حملہ کیا اور تادم تحریر افغان سیکورٹی فورسز اور افغان و امریکی سیکورٹی فورسز نے افغان طالبان کے حملے کو مکمل طور پر پسپا کرنے میں ناکام رہے ہیں اور غزنی کو واپس لینے کوششوں میں مصروف ہیں۔ امارات اسلامیہ نے غزنی شہر سے مقامی افراد اور قابض علاقوں میں اپنے جنگجوئوں کی کامیابیوں کی باقاعدہ ویڈیو بھی جاری کردی ہے جس میں واضح دیکھا جا سکتا ہے کہ افغان سیکورٹی فورسز اور امریکی اتحادیوں کو غزنی کا قبضہ چھڑانے میں ناکامی کا سامنا ہے۔ جبکہ غزنی پر حملے کے علاوہ صوبہ فریاب کے غور ماچ ضلع کے فوجی اڈے ‘کیمپ چینانا’پر بھی قبضہ کرلیا ہے جس کی کابل کے سرکاری ذرائع نے بھی تصدیق کردی ہے۔17برس سے جاری جنگ میں جارح امریکا کے خلاف امارات اسلامیہ کی یہ نئی اور بھرپور کامیابی ہے۔ اس مزاحمت و کاروائی کو کامیابی اس لئے قرار دیا جارہا ہے کیونکہ دنیا کے واحد سپر پاور کہلانے والے امریکا اور اس کی کٹھ پتلی حکومت اپنے بلند بانگ دعوئوں کے باوجود افغان طالبا ن کی مسلح مزاحمت کو ختم یا کم کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکے۔
گزشتہ دنوں 250 سے زائد داعش سے تعلق جنگجوئوں کے حوالے سے مخصوص ذرائع ابلاغ کو بتایا گیا کہ انہوں نے کابل حکومت کو سرنڈر کردیا ہے ۔ ان کی ویڈیو بھی جاری کی گئی ۔ کم عمر نوجوانو ں کی بڑی تعداد اس میں شامل تھی ۔ تاہم ایک اور ویڈیو بھی سامنے آئی جس میں مبینہ داعش ( خراسان) جنگجوئوں کو ہیلی کاپٹرز سے اترتے دیکھا جا سکتا تھا ان میں چند زخمی مرد اور خواتین بھی تھیں ۔ افغان طالبان نے دعویٰ کیا کہ کابل حکومت نے ان داعش ( خراسان) کے جنگجوئوں کو امارات اسلامیہ سے بچایا ہے ۔ جو افغان طالبان سے مسلح جھڑپ کررہے تھے ۔ اس جھڑپ میں داعش کے جنگجو ، کابل حکومت کے ساتھ ملکر افغان طالبان پر حملہ آور ہوئے تھے لیکن شدید مزاحمت کی وجہ سے انہیں جانی نقصان اٹھانا پڑا ۔ باقی ماندہ جنگجوئوں کو بچا کر کابل حکومت نے میڈیا کے سامنے ایسا ظاہر کیا کہ جیسے انہوں نے کابل حکومت کے سامنے سرنڈر کردیا ہو۔ افغان طالبان نے کابل حکومت پر دوبارہ سنگین الزام لگایا کہ وہ امارات اسلامیہ کے خلاف جہاں این ڈی ایس اور امریکی اتحادیوں کی مدد حاصل کرتی ہے تو دوسری جانب دنیا کو دھوکہ دینے کے لئے داعش( خراسان) کو بھی سہولت اور جنگی سامان و رسد بھی دے رہی ہے ۔ کابل حکومت ان الزامات سے ماضی میں بھی انکار کرتی رہی ہے لیکن زمینی حقائق کابل حکومت کے برخلاف نظر اتے ہیں۔ غزنی میں افغان طالبان کا منظم حملہ کابل اور امریکی اتحادیوں کی کمزوری پر دلالت کرتا ہے کہ ان کے مقابلے میں افغا ن طالبان کی جنگی قوت میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے اور ان کی پیش قدمی بڑھتی جا رہی ہے۔
گزشتہ دنوںافغان طالبان نے شب و صبح کے درمیانی وقت میں شدید اور بھاری گولہ باری کے ساتھ غزنی شہر پر چار اطراف سے حملہ کیا ۔ سب سے پہلے شہر کے ‘ترک ٹاپا’ نامی پہاڑ پر ٹیلی کمیونیکیشن کے زیادہ تر ٹاور ز کو تباہ کرکے کیمونیکشن نظام کو ختم کیا ۔ افغان طالبان اپنے مخصوص فوجی وردیوں کے ساتھ باقاعدہ ایک فوج کی شکل میں حملہ آور ہوئے تھے ۔ گذشتہ کئی مہینوں سے افغان طالبان کے میڈیا سیل کی جاری ویڈیوز سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا تھا کہ افغان طالبان اپنی منظم فورس کی تیاری کررہی ہے ۔ مختلف گروپوں کی ان ویڈیوز میں انہیں باقاعدہ فوجی اور کمانڈوز کے مخصوص لباس میں دیکھا جاسکتا تھا ۔ دیگر کابل فوجیوں سے ان کی جداگانہ شناخت ان کے لمبے بال اور داڑھیاں تھیں جس سے علم ہوا کہ یہ نئی جنگی فورس دراصل افغان طالبان ہیں جو جدید ترین ہتھیاروں سے لیس ہیں۔ افغان طالبان کے مڈ نائٹ آپریشن کا کابل سیکورٹی فورسز سامنا نہیں کرسکے اور بڑی تیزی سے فرار ہونے لگے جس میں ان کا کافی جانی نقصان ہوا۔ عالمی خبر رساں ادارے کو عینی شاہدین نے بتایا کہ ”جنگی جہاز اور ہیلی کاپٹر رات دو بجے فضائی چکر لگاتے رہے۔
تین ہیلی کاپٹرز نے مشرق میں واقع پولیس ہیڈ کوارٹر پر اترنے کی کوشش کی لیکن اسے تباہ ہوتے سب نے دیکھا ، جس کا مطلب یہ تھا کہ رات دو بجے تک افغان طالبان پولیس ہیڈ کوارٹر پر قبضہ کرچکے تھے ۔شہر کے مشرقی حصے میں واقع سرکاری عمارتوں کو افغان طالبان نشانہ بنا چکے تھے اور سرکاری اہلکاروں یا تو فرار ہونے کی کوشش کررہے تھے یا جان کی بازی بھی ہار گئے تھے۔افغان طالبان نے غزنی شہر پر چاروں طرف سے حملہ کیا تھا۔ عینی شاہدین کے مطابق افغان طالبان کے جنگجو اب شہر کے اندر تھے، افغان طالبان شہر کے وسط میں واقع سینیما چوک کے قریب پولیس کے تربیتی مرکزپر قبضہ کرچکے تھے۔افغان طالبان جدید جنگی ہتھیاروں سے لیس تھے’ جنگی حکمت عملی کے تحت افغان طالبان نے غزنی ائیر پورٹ کو بھی نقصان پہنچایا ۔ اب تین دن کی جنگی جھڑپوں کے بعد صورتحال یہ تھی کہ افغان طالبان شہر کے اندر اور کابل سیکورٹی فورسز شہر سے باہر شمال کے علاقوں میں تھے جو جھڑپوں سے پناہ لینے والوں کو روک کر باز پرس کرتے ، اور انہیں شناخت کے بعد یہ میدان بشار اور سید آباد کے کئی دیہاتوں کو عبور کرنے کے بعد غزنی شہر سے پناہ کی تلاش میں جانے والوں نے کابل پہنچ جاتے”۔کابل سیکورٹی فورسز نے شروع میں دعوی کیا تھا کہ غزنی میں اُن علاقوں کا قبضہ واپس لے لیا گیا ہے جو 10 اگست کے حملے میں افغان طالبان نے حاصل کرلئے تھے ۔ لیکن متواتر چھڑپیں ظاہر کررہی ہیں کہ کابل سیکورٹی فورسز کو فوری کامیابی نہیں ملی۔2017میں ملک کے وزیر دفاع عبداللہ حبیبی اور فوج کے سربراہ قدم شاہ شاہیم نے مزار شریف سے ملحق فوجی چھاؤنی پر طالبان کے حملے کے تناظر میں اپنے استعفے جمع کروائے تھے۔ یہ افغانستان میں جاری لڑائی کی سولہ سال کی تاریخ میں کسی بھی فوجی تنصیب پر مہلک ترین حملہ تھا۔اس حملے میں افغان طالبان نے کابل سیکورٹی فورسز کو شدید نقصان پہنچایا تھا ۔
غزنی حملے کے حوالے سے امارات اسلامیہ کے مرکزی ترجمان نے اہم معلومات سے آگاہ کیا ۔ مرکزی ترجمان کے مطابق الخندق آپریشن کے سلسلے میں امارت اسلامیہ نے صوبہ غزنی کابل سیکورٹی فورسز کے مراکز پرحملہ کیا۔ پہلا حملہ صدر مقام غزنی شہر کے شاخوئی کے علاقے میں واقع دو چوکیوں پر حملہ کیا،جس کے نتیجے میں دونوں چوکیوں اور ساتھ قلعہ جوز کے مقام پر قائم تین چوکیوں کا کنٹرول حاصل کرلیا اور وہاں تعینات درجنوں اہلکار ہلاک و زخمی ہونے کے علاوہ دو فوجی رینجر گاڑیاں بھی تباہ ہوئیں۔ترجمان کے مطابق گذشتہ کئی روز سے صوبہ غزنی کے صدر مقام غزنی شہر میں کابل سیکورٹی فورسزکے مراکز اور چوکیوں پر افغان طالبان کے حملے میں جاری ہیں۔ کابل سیکورٹی فورسز محدود علاقے میں محصور ہیں۔مرکزی ترجمان نے کابل سیکورٹی فورسز پر الزام لگایا کہ کابل فوجی شہر میں عوامی مقامات، دکانوں،مارکیٹوں اور حتی مساجد کو نذرآتش کرکے فرار ہو رہے ہیں ۔ جبکہ افغان طالبان نے کسی نجی یا شہری مقام یا عمارت کو نقصان نہیں پہنچایا اور حملہ نہایت محتاط طریقے سے کیاجارہا ہے۔مرکزی ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کے مطابق کسی بھی مقبوضہ جگہ ، مکان اور خاص کر نجی املاک کو نقصان پہنچانے سے تمام افغان طالبان کو قائدین کی جانب سے سختی سے ہدایت ہے کہ نہ تو نجی املاک کو نقصان پہنچائیں اور نہ ہی اُسے نذر آتش کریں ۔ انہوں نے کہا کہ پولیس ہیڈ کوارٹر کے قریب قالین مارکیٹ میں افغان طالبان نے آگ نہیں لگائی بلکہ کابل سیکورٹی فورسز فرار ہوتے ہوئے جان بوجھ کر ایسا عمل کررہے ہیں تاکہ افغان طالبان کو بد نام کرسکیں۔ افغان طالبان نے اپنے ایک اعلان میں اہل غزنی کو بھی یہ پیغام دیا ہے کہ وہ کسی کی نجی املاک کو نقصان نہیں پہنچا رہے بلکہ فرار ہونے والی کابل سیکورٹی فورسز کے فوجی یہ عمل کررہے ہیں۔
عالمی ذرائع ابلاغ کے آزاد ذرائع اس بات کی تصدیق کررہے ہیں کہ غزنی شہر کے بیشتر حصے اب افغان طالبان کے کنٹرول میں ہیں ۔ امریکی اتحادی افواج کا تمام تر دارو مدار فضائی حملوں تک محدود ہوگیا ہے ، زمینی راستے سے جانے والے قافلوں پر افغان طالبان حملے کرتے ہیں جس سے غزنی شہر میں فوجی کمک نہیں پہنچ پا رہی ، مواصلات کا نظام درہم برہم ہے اور افغان طالبان کی جانب سے جاری ویڈیو کے مطابق وسط غزنی شہر میں عوام کو گھومتے پھرتے دیکھا جاسکتا ہے۔ جس سے ظاہر ہورہا ہے کہ غزنی شہر کے بیشتر علاقوں میں افغان طالبان کی گرفت مضبوط ہے ۔امریکی اتحادی فورسز کے فضائی حملوں سے عام شہریوں اور مکانات کو نقصان پہنچ رہا ہے کیونکہ امریکی اور افغان سیکورٹی فورسز کو زمینی راستوں سے غزنی چھینے جانے والے علاقوں کی واپسی میں شدید دشواری کا سامنا ہے اس لئے شک کی بنیاد پر شہری علاقوں کے عام مکانات کو بھی نقصان پہنچانے کی اطلاعات سامنے آرہی ہیں۔ جس میں عام شہریوں کی ہلاکتیں بڑھ رہی ہیں ۔ ریڈ کراس کی جانب سے بھی ان خدشات کا اظہار کیا گیا ہے دونوںفریقین عارضی جنگ بندی کرں تاکہ زخمیوں کو علاج معالجے کے لئے ادویات پہنچائی جا سکیں۔افغان طالبان کے ترجمان نے ریڈ کراس کو امارات اسلامیہ سے رابطہ کرنے کی ہدایت کی ہے کہ وہ ان کی نگرانی میں کسی بھی علاقے میں جا سکتے ہیں۔
افغانستان کی بگڑتی صورتحال اور افغان طالبان کی بڑھتی پیش قدمی ظاہر کررہی ہے کہ کابل حکومت مزید محدود ہوتی جارہی ہے۔ امریکا کو افغانستان میں جلد امن کی کوئی جلدی نہیں ہے۔ کیونکہ یہ بات سامنے آچکی ہے کہ امریکا دراصل چین کو افغانستان میں محفوظ راہدری ( ون بیلٹ ون روڈ) میں رکائوٹ بننا چاہتا تھا ۔ امریکا ، چین کی معاشی طاقت کو لیکر شدید خوف میں مبتلا ہے۔ امریکا کی ٹرمپ انتظامیہ نے عالمی طور اقتصادی جنگ کا آغاز کردیا ہے۔ چین کی برآمدات پر امریکا نے بھاری بھرکم ٹیکس لگا کر ایک نئی اقتصادی جنگ کا آغاز کیا تھا ۔جون 2018میں امریکا نے50بلین ڈالر کی چینی درآمدات پر25فیصد ٹیکس عائد کرنے کا اعلان کیا تھا ۔ جس سے پہلے مرحلے میں چین پر 25ارب ڈالر کا اضافی بوجھ آیا ۔ امریکی اقدام کے نتیجے میں چین نے اگست2018میں امریکی 128مصنوعات پر ٹیکس عائد کی شرح بڑھا دی ۔ چین کی وزارتِ خزانہ کے مطابق چین نے امریکی برآمدات پر محصولات میں کمی تنظیم برائے بین الاقوامی تجارت (ڈبلیو ٹی او) کے ضوابط کے تحت کر رکھی تھی جسے چین اب اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے واپس لے رہا ہے۔بیان کے مطابق امریکہ نے اسٹیل اور المونیم کی درآمدات پر اضافی ٹیکس عائد کرکے چین کے مفادات کا زک پہنچائی ہے جس کے جواب میں چین بھی ‘ڈبلیو ٹی او’ کے قواعد کے تحت جوابی اقدامات کرنے میں آزاد ہے۔
امریکا نے چین کے ساتھ ہی صرف اقتصادی جنگ شروع نہیں کی بلکہ جون2018میں ٹرمپ انتظامیہ نے یورپی یونین ، میکسیکو،اور کینڈا پر بھی اضافی محصولات عائد کئے ۔ اسٹیل پر 25 اور ایلومینیم پر 10 فیصد اضافی ٹیکسوں کے نفاذ پر عالمی تجارتی تنظیم سے اور اتحادی ممالک کی طرف سے شدید ردعمل ظاہر کیا گیا۔ یورپی کمیشن کے صدر ڑاں کلود ینکر نے کہا تھا کہ،یہ دن عالمی تجارت کے لیے ایک برا دن ہے’۔ یورپی ممالک نے اس امریکی فیصلے پر فوری ردعمل ظا ہر کرتے ہوئے اس کی مذمت کی تھی۔امریکی صدر کی جانب سے اقتصادی جنگ رکنے کا سلسلہ بند نہیں ہوا او ر ٹرمپ نے ترکی کو بھی اقتصادی جنگ کی لیپٹ میں لے لیا ۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ٹوئٹر پر پیغام جاری کرتے ہوئے کہا کہ” ترک کرنسی لیرہ کی قیمت، ہمارے مضبوط ڈالر کے مقابلے میں کم ہونے کے باعث المونیم کی درآمدات کی قیمت کو 20 فیصد تک بڑھایا جائے گا اور اسٹیل کی در آمدات کی قیمت کو 50 فیصد تک بڑھایا جائے گا۔ترکی نے فوری جواب دیتے ہوئے کہا تھا کہ امریکہ کے اس اقدام سے دو اتحادیوں کے درمیان تعلقات کو مزید نقصان پہنچے گا۔ترکی صدر اردوغان نے امریکا کی تیار کردہ الیکڑونک مصنوعات کا بائیکاٹ کرنے کا اعلان کردیا جس کے بعد ترکی کی کرنسی میں بتدریج استحکام دیکھنے میں آرہا ہے۔ واضح رہے کہ امریکی صدر نے روس پر بھی کئی پابندیاں عاید کیں جس سے روبل کرنسی میں کمی کا رجحان پیدا ہوا ۔ ترکی اور روس نے مشترکہ لائحہ عمل اپنانے کے لئے رابطوں کا آغاز کردیا ہے۔امریکا نے ایران پر بھی ایٹمی معاہدے سے نکلنے کے بعد پابندیاں عائد کیں جس پر یورپی ممالک سمیت روس نے بھی شدید ردعمل کا مظاہرہ کیا ۔ عراق نے امریکی اقدام کے نتیجے میں ایرانی مصنوعات کی خریداری کے لئے ڈالر بجائے ایرانی و عراقی کرنسی میں خرید وفروخت کا اعلان کردیا ہے۔مئی2018میں امریکی صدر نے صدر نکولس ماڈورو کے چھ سال کی دوسری مدت کے لیے انتخاب کو دھوکہ دہی قرار دیتے ہوئے اس ملک کے خلاف اقتصادی پابندیاں لگا دی تھی۔صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک انتظامی حکم نامے پر دستخط کیے تھے جس کے تحت وینزویلا سے تیل کی تمام ترسیلات بند کر دی گئی ہیں۔واضح رہے کہ وینزویلا کا شمار ایک زمانے میں تیل پیدا کرنے والے دنیا کے چوٹی کے ملکوں میں ہوتا تھا۔
پاکستان کے خلاف امریکا کی اقتصادی جارحیت کا ایک طویل سلسلہ” ڈو مور ”سے جڑا ہوا ہے ۔ مختلف اوقات میں متفرق بہانے تراش کر پاکستان کی عسکری اور دیگر مالی امداد پر پابندیاں عائد کرنا امریکا کی ٹرمپ انتظامیہ کا پسندیدہ مشغلہ بن چکا ہے ۔ جبکہ خطے کی سب سے بڑی انتہا پسند ہندو ریاست بھارت پر امریکا کی نوازشیں بھی ڈھکی چھپی نہیں ہیں۔ امریکا بھارت کو نواز کر دراصل خطے میں عالمی اقتصادی جنگ کو مزید پھیلا رہا ہے۔ امریکا جانتا ہے کہ دراصل افغانستان کی جنگ میں اُسے شدید مزاحمت و شرمندگی کا سامنا ہے اس لئے افغانستان جو کہ امریکا کی سب سے مہنگی اور طویل جنگ ہے ، اس کے نقصان پورے کرنے کے لئے اب امریکا اپنے اقتصادی خسارے کو پورا کرنے کے لئے چین ، یورپی یونین، ترکی ، روس ، ایران ، شمالی کوریا ، وینزیلا، میکسکو اور کینڈا سمیت کئی ممالک کی درآمدات پر بھاری محصولات عائد کررہا ہے ۔ جس سے امریکا دو مقاصد حاصل کرنا چاہتا ہے ۔ جس میں پہلا مقصد افغانستان میں جاری جنگ کے خسارے کو پورا کرنے کے متبادل طریقوں سے امریکی بدترین خسارے کو کم کرنا ہے ۔ دوئم عالمی سیاسی منظر نامے میں نئی ابھرنے والی قوتوں کو اقتصادی طور پر کمزور بنا کر واحد سپر پاور ہونے کا ڈھونگ مسلسل رچانا ہے۔روس ، ترکی ، ایران اور چین امریکا کی استبدادی قوت کو چیلنج دینے کے لئے مکمل تیار ہے۔ امریکا چونکہ ان عالمی قوتوں سے براہ راست جنگ کا متحمل نہیں ہوسکتا اس لئے اقتصادی جنگ کا نیا آغاز شروع کردیا ہے ۔ جس کا جواب امریکا کو برابر دیا جارہا ہے ۔ جس کی وجہ سے امریکا کی مشکلات میں مزید اضافہ ہورہا ہے۔
امریکی صدر کی جھنجلاہٹ کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ وہ اپنے ہی ملک کے میڈیا کے خلاف بدترین رویہ اختیار کیا ہوا ہے اور امریکی میڈیا کی جانب سے حقائق سامنے لائے جانے پر امریکی میڈیا کو عوام کا دشمن قرار دیتا ہے۔ امریکی میڈیا کی تاریخ میں پہلی مرتبہ 100سے زائداخبارات نے اتحاد بنا کر مشترکہ اداریہ جاری کرنے کا اعلان کیا ہے۔ دراصل امریکی میڈیا صدر ٹرمپ کی جانب سے اشتعال انگیز رویہ اور زمینی حقائق کے برخلاف اقدامات پر کھل کا اظہار کرتا ہے جس پر امریکی صدر چراغ پا ہوجاتے ہیں ۔ امریکی میڈیا جہاں صدر ٹرمپ کے ناقص پالیسیوں کو تنقید کرتا ہے تو دوسری جانب افغانستان میں امریکی شکست کے زمینی حقائق سے امریکی عوام کو آگاہ بھی کرتا ہے کہ صدر ٹرمپ، امریکی عوام کو دھوکا دے کر ان کے ٹیکسوں سے لاحاصل جنگ کو ڈالرز کی آگ سے جاری رکھنے پر مصر ہے۔ امریکا کبھی پاکستان پر اپنی ناکامیوں کا ملبہ ڈالتا ہے تو کبھی روس اور ایران کوہر مورد الزا م ٹھہراتا ۔ لیکن اپنی ناقص اور ناکام پالیسیوں کو تسلیم کرنے کے بجائے امریکی ہٹ دھرمی نے پوری دنیا کے امن کو خطرے میں مبتلا کر رکھا ہے۔
افغانستان میں غزنی شہر پر افغان طالبان کا حالیہ منظم حملہ امریکا اور ان کی عوام کے لئے نوشتہ دیوار ہے کہ امریکا 17برس افغانستان میں امن کے نام پر کیا کرتا رہا ہے۔ کئی ہزار ارب ڈالر افغانستان کی لاحاصل جنگ میں جھونک چکا ہے اور کامیابی اب بھی امریکا اور اس کے اتحادیوں سے کئی منازل دور ہے۔اب چین کی دشمنی میں بھارت کے ساتھ گٹھ جوڑ کر کے کٹھ پتلی کابل کے ساتھ افغانستان میں جنگ کو طوالت دے کر اپنی موجودگی کا بھونڈا جواز پیدا کررہا ہے۔ امریکا کو افغانستان میں مکمل شکست کا سامنا ہے۔ امریکا کو اس حقیقت کو تسلیم کرلینا چاہیے اور افغانستان کے مسئلے کے حل کے لئے ان ہی اسٹیک ہولڈرز سے بات چیت کو بامقصد بنانا چاہیے جن پرجارحیت کرکے افغانستان میں لاحاصل جنگ کا آغاز کیا تھا ۔ 16برس امریکا اور امارات اسلامیہ کے درمیان جنگ کا آغاز ہوا تھا جو اب تک جاری ہے ۔ جنگی و اخلاقی اصولوں کے تحت امریکا کو امارات اسلامیہ سے ہی با مقصد مذاکرات کرکے افغانستان سے اپنی افواج کو باہر نکالنا ہوگا ۔ سابق افغان صدر بھی اعتراف کرچکے ہیں کہ اگر افغان طالبان ہوتے تو افغانستان میں کئی برس قبل ہی امن قائم ہوجاتا۔ امریکا جہاں ایک طرف جنگی محاذ میں ناکامی کو دستخط دے چکا ہے تو دوسری جانب عالمی اقتصادی جنگ میںعقل سے عار ی فیصلے کررہا ہے جس پر خود مغربی ،یورپی ممالک سمیت امریکی میڈیا شدید تنقید کررہے ہیں۔امریکی کی معاشی زبوں حالی مختلف ممالک کو جنگ میں مبتلا کرکے ختم نہیں کی جا سکتی ۔ دنیا میں امن کے لئے ضروری ہے کہ امریکا اپنی معاشی و جنگی پالیسی پر نظر ثانی کرے۔ امریکی صدر ٹرمپ کو اپنی عوام ، عالمی رائے اور خود اپنے ہی ریاستوں کے میڈیا کے مشوروں پر عمل کرنے کی ضرورت ہے۔امریکا کئی ممالک میں مہنگی ترین جنگیں کرچکا ہے اور بری طرح شکست بھی کھا چکا ہے۔ افغانستان کا معاملہ امریکا کے گلے میںپھنس چکا ہے ، افغانستان کی جنگ کے دلدل سے خود باہر نکالنے کے لئے امریکا کو بردباری کے ساتھ زمینی حقائق کا ادارک کرنا ہوگا ۔ امریکا ابھی افغانستان کی جنگ سے باہر ہی نہیں نکل سکا کی ایک نئی عالمی اقتصادی جنگ کا آغاز کرچکا ہے۔ زمینی حقائق بدل رہے ہیں۔اب جنگ ہتھیاروں سے نہیں اقتصادی پالیسیوں سے لڑی جا رہی ہے۔ اقتصادی جنگ ، افغانستان کی جنگ کے نتیجے سے بھی زیادہ ہولناک ہے۔ اس بات کو امریکا سمجھتا ہے لیکن امریکی صدر ٹرمپ خود اعتمادی کا شکار ہیں۔ جس کا خمیازہ امریکی عوام کو بدترین معاشی حالات اور بھیانک مہنگائی کی صورت میں بھگتنا ہو گا۔