تحریر : قادر خان یوسف زئی بین الاقوامی فوجداری عدالت گزشتہ تین مہینوں سے افغانستان میں ممکنہ طور پر جنگی جرائم میں ملوث افراد کے خلاف شواہد اکھٹے کررہی ہے۔ بیان میں بتایا گیا ہے کہ20 نومبر2017سے 31 جنوری 2018میں اکٹھی کی جانے والی 11لاکھ 70ہزار سے زیادہ دستاویزات جمع ہوئی ہیں جن میں کہا گیاہے کہ وہ جنگی جرائم کا ہدف بن چکے ہیں۔ انسانی حقوق و تشدد کے خاتمے سے متعلق ایک گروپ کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر عبدالودود پدرام کا ماننا ہے کہ ان 11لاکھ 70ہزار دستاویزات کو بنیا د بنا کر جنگی جرائم کی تحقیقات کے لئے بین الاقوامی فوجی عدالت فیصلہ کرسکتی ہے کہ افغانستان میں جہاں پورا کا پورا گائوں بھی جنگی جرائم کا شکار ہوچکا ہے ، تحقیقات ہونی چاہیے۔ ایگزیکٹو ڈائریکٹر عبدالودود پدرام نے اعتراف کیا کہ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ افغانستان میں متاثرہ افراد اور ان کے خاندانوں کو اس ملک کے نظام عدل سے انصاف فراہم نہیں ہورہا ۔ انہوں نے ان گروپوں کے حوالے سے مزید تفصیلات سے آگاہ نہیں کیا تاہم اس بات کا اظہار کیا کہ ان کے پاس فہرست موجود ہے کہ کون سے گروپ افغانستا ن میں جنگی جرائم کے ذمے دار ہیں ۔ایگزیکٹو ڈائریکٹر عبدالودود پدرام کے بیان سے قبل 2017میں بھی بین الاقوامی عدالتِ انصاف کے افسر استغاثہ کی جانب سے ذرائع ابلاغ کو آگاہ کیا گیا تھا کہ بین الاقوامی عدالتِ انصاف (آئی سی سی) کے سامنے بھی یہی شکایات سامنے آئی تھی ۔آئی سی سی نے تحریری درخواستوں پر افغانستان میں پیش آنے والے واقعات کی نوعیت پر چھان بین کے لئے غور شروع کیا کہ افغانستان میں لاکھوں درخواستوں پرجنگی جرائم کی تحقیقات شروع کی جا سکیں۔
جج اس بات کا تعین کر رہے ہیں کہ وہ افغانستان کے متاثرہ افراد کی تحریری درخواستوں کی چھان بین کرنا شروع کریں گے تاکہ یہ دیکھا جا سکے کہ ممکنہ تحقیقات کس نکتے پر مرکوز کی جائیں۔2017 میں آئی سی سی کے افسر استغاثہ فاتو بینسودا نے کہا تھا کہ اس بات کی ‘قابلِ قدر بنیاد موجود ہے’ کہ جنگی جرائم کا ارتکاب ہوا ہے۔آئی سی سی کی جانب سے اس مجوزہ تفتیش میں مئی 2003 کے بعد کے واقعات کا جائزہ لیا جانا ہے۔توقع یہ رکھی جا رہی ہے کہ اگر تحقیقات کی اجازت مل جاتی ہے تو کسی غیر ملکی کو بھی تفتیش میں شامل کیا جاسکے گا خاص کر بد نام زمانہ بگرام حراستی مرکز میں قیدیوں کو بغیر کسی قانون کے تحت رکھ کر بدترین بہیمانہ تشدد کے حوالے سے بھی سوالات اٹھائے جاسکتے ہیں ۔ ایسے بے شمار قیدی ہیں جنہیں بگرام حراستی مرکز میں انسانیت سوز تشدد کا نشانہ بنایا گیا ۔ جنہیں کسی قانونی تقاضوں کو اپنائے بغیر بگرام حراستی سینٹر میں رکھے گئے اور پھر انہیں گوانتا نا موبے منتقل کیا گیا ۔ مارچ 2003کے بعد سے آج تک منظر عام پر آنے والے سنگین نوعیت کے واقعات کے ذمے داروں کے تعین کیلئے تحقیقات انتہائی ضروری ہے۔
ابتدائی طور پر یہ حراستی مرکز امریکیوں نے تعمیر کیا تھا اور وہ ہی اسے چلاتے تھے، تاہم بعد میں اس کا انتظامی کنٹرول افغان حکام کو دے دیا گیا۔گوتانامو بے کے چند موجودہ اور سابق قیدیوں کے لیے فلاحی تنظیم ریپریو انٹرنیشنل کریمینل کورٹ میں درخواستیں جمع کروا رہی ہے۔تنظیم ریپریو کی ڈائریکٹر مایا فو کا کہناتھا کہ بگرام میں مبینہ تشدد کے واقعات میں ‘پستولوں کے ساتھ رشیئن رولٹ، قیدیوں کو کئی روز تک سٹریس پوزیشن میں رکھنا شامل ہیں، ایسا تشدد جس نے ان افراد کو جسمانی اور ذہنی طور پر تباہ کر دیا۔امریکی حکام کا کہنا ہے کہ اگرچہ وہ طالبان کو انصاف کے کٹہرے تک لانا چاہتے ہیں، مگر آئی سی سی کی تفتیش ‘بلاجواز اور غیر منصفانہ’ ہو گی۔ امریکہ آئی سی سی کا رکن ملک نہیں ہے۔2002 میں امریکی کانگریس نے ایک قانون منظور کیا تھا جس کے تحت امریکی حکام کو اجازت دی گئی کہ آئی سی سی کے زیرِ حراست کسی بھی امریکی اہلکار کو چھڑوانے کے لیے کچھ بھی کیا جا سکتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ امریکی حکام کے خلاف کامیاب مقدمات چلانا انتہائی مشکل ہے۔ مگر آئی سی سی پر بھی دباؤ ہے کہ کیا وہ سیاسی طور پر نازک معاملات سے نمٹ سکتی ہے۔
جنگی جرائم اور انسانی حقوق کی سنگین پامالی کے حوالے سے منظر عام پر آنے والی اہم رپورٹس میں ظاہر ہوتا ہے کہ افغانستان میں امریکی مداخلت کے بعد جنگی جرائم کے حوالے سے بین الاقوامی فوجداری عدالت اور بین الاقوامی عدالتِ انصاف تحقیقات کی ضرورت کو محسوس کرتی ہے لیکن یہ بھی ظاہر ہورہا ہے کہ ان تحقیقات کے سامنے امریکی حکام کا عدم تعاون بھی مشکلات کا سبب بن رہا ہے کیونکہ جنگی جرائم کے حوالے سے امریکہ ، افغان سیکورٹی فورسز کے خلاف افغان عوام کی شکایات زیادہ ہیں۔ گو کہ افغان طالبان ، داعش سمیت دیگر گروپوں کے خلاف بھی تحقیقات کا عندیہ دیا گیا ہے لیکن جنگی جرائم کے حوالے سے کابل حکومت اور امریکی افواج کو کافی تنقید کا سامنا ہے ۔ خاص طور پر افغانستان کے نائب صدر جنرل دوستم جو افغانستان میں موجود نہیں ہیں اور علاج کے غرض سے بیرون ملک گئے تھے انہیں حیرت انگیز طور پر کابل حکومت نے دوبارہ افغانستان میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دی گئی ، مئی2017میں جنرل دوستم افغانستان سے بیرون ملک گئے تھے لیکن جولائی میں جب واپس آنے کی کوشش کی تو ان کے طیارے کو افغانستان کی سرزمین میں اترنے کی اجازت نہیں دی گئی۔ افغانستان کے نائب صدر کے موجودہ کابل انتظامیہ سے اختلافات ہیں یا پھر کابل حکومت انہیں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور جنگی جرائم میں ملوث ہونے پر بچانا چاہتی ہے یہ امر نہایت حیران کن ہے کہ کابل حکومت کا اہم اتحادی جو کہ افغانستان کا نائب صدر بھی ہے اس کے حکومتی اتحادی ہی افغانستان میں جنرل دوستم کو افغانستان میں آنے کی اجازت نہ دے رہے ہو ۔ ان کے خلاف عرصہ دراز سے شمال افغانستان میں انسانی حقوق کی پامالی سمیت جنگی جرائم میں ملوث ہونے کے سنگین الزامات ہیںاور بارہا جنرل دوستم عدالتوں میں پیش ہونے سے انکار کر چکے ہیں۔
انٹرنیشنل کرمنل کورٹ کی پراسیکیوٹر افغان جنگ میں مبینہ جنگی جرائم کے ارتکاب پر باضابطہ تحقیقات کرانے کے لیے کوششیں کر رہی ہیں۔نومبر2017میں جاری اپنے ایک بیان میں پراسیکیوٹر فاتو بینسوڈا نے کہا تھا کہ ‘قابل یقین شواہد موجود ہے کہ جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف جرائم کا ارتکاب ہوا۔فاتو بینسوڈا کا کہنا تھا کہ صورتحال کا ابتدائی جائزہ لینے کے بعد ‘میں اس نتیجے پر پہنچی ہوں کہ تحقیقات کرنے کے لیے تمام مطلوبہ قانونی تقاضے پورے ہو چکے ہیں۔’ پراسیکیوٹر فاتو بینسوڈا کے مطابق انھوں نے جرائم کی بین الاقوامی عدالت سے تحقیقات کا آغاز کرنے کی اجازت مانگی۔ اگر ان کی درخواست منظور ہو گئی تو یہ پہلا موقع ہو گا کہ کسی امریکی کو مبینہ طور پر ہونے والے جنگی جرائم میں ذمہ دار ٹھرایا جا سکے گا۔ یہ امر قابل توجہ ہے کہ امریکہ آئی سی سی کا رکن نہیں ، لیکن فاتو بینسوڈا اس لئے تحقیقات کرنا چاہتی ہیں کیونکہ افغانستان آئی سی سی کا رکن ہے۔ اس وجہ سے عدالت اپنے کسی بھی ممبر ملک کی حدود میں ہونے والے جرائم کا احاطہ کر سکتی ہے چاہے مجرم کسی بھی قومیت سے تعلق رکھتا ہو۔ بینسوڈا نے اپنی تحقیقات کے حوالے سے بتایا کہ وہ افغان جنگ میں تمام فریقین کے الزامات کو دیکھ رہی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ غیر جانبدار اور آزادانہ تحقیقات کریں گے۔پراسیکیوٹر فاتو بینسوڈا کا امننا ہے کہ اگر تحقیقات کی اجازت ملی تو اس سے پھر دنیا میں جولائی 2002 کے بعد مبینہ طور پر ہونے والے جنگی جرائم جنھیں افغانستان کی صورتحال سے بہت قریبی طور پر جوڑا جاتا ہے پر توجہ مرکوز کی جائے گی۔ہیومن رائٹس واچ نے اس اقدام کا خیر مقدم کیا ہے۔تنظیم کے ترجمان نے انکشاف کرتے ہوئے کہا تھا کہ’افغانستان میں لاتعداد افرد ایسے سنگین جرائم شکار ہوئے جنھیں سالوں سے سزا نہیں ہو سکی۔’افغان صوبے پکتیکا میں ملٹری کے تربیتی مرکز پر خودکش حملے کے بعد کے مناظرسنہ 2016 میں بھی آئی سی سی نے اپنی رپورٹ میں کہا تھا کہ اس پر یقین کرنے کی معقول بنیاد موجود ہے کہ امریکی فوج نے افغانستان میں خفیہ قید خانے بنا رکھے تھے جنھیں سی آئی اے چلا رہی تھی۔
اکتوبر2015 میں نیٹو و امریکی افواج کی جانب سے جنگی جرائم پر مبنی ایک سنگین کاروائی پر اقوام متحدہ نے بھی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے قندوز میں ہسپتال پر کی جانے والی امریکی بمباری کو اقوامِ متحدہ کے انسانی حقوق کے ادارے کے مندوب نے المناک، ناقابلِ معافی اور ممکنہ طور پر مجرمانہ فعل قرار دیا تھا۔ انسانی حقوق کے مندوب زید رعد نے واقعے کی شفاف اور مکمل تحقیقات کا مطالبہ کیا تھا۔بین الاقوامی تنظیم میڈیسنز سانز فرنٹیئرز (ایم ایس ایف) نے احتجاج کرتے ہوئے کہا تھا کہ قندوز میں تنظیم کے ہسپتال پر فضائی کارروائی پر افغان حکومت کا بیان نفرت انگیز ہے اور جنگی جرائم کے اقبال کے مترادف ہے۔یاد رہے کہ قندوز میں ایم ایس ایف کے ہسپتال پر فضائی کارروائی کے نتیجے میں ایم ایس ایف کے سٹاف سمیت 22 افراد ہلاک ہوئے تھے۔ایم ایس ایف کے مطابق بمباری میں 39 افراد شدید زخمی ہوئے ہیں جن میں سے 19 ان کے کارکن ہیں۔ بمباری کے وقت ہسپتال میں کم از کم ایک سو مریض موجود تھے، لیکن حملے کے بعد ابھی تک مریضوں کی اکثریت کے بارے میں معلوم نہیں ہو سکا ہے کہ وہ کدھر گئے۔ڈاکٹرز ود آؤٹ بارڈرز نے بیان اپنے بیان میں کہاتھا کہ قندوز میں قائم ایم ایس ایف کے ٹراما سنٹر پر پے در پے کئی بار بمباری کی گئی جس سے سینٹر کو زبردست نقصان ہوا ہے۔
بمباری سے متاثرہ افراد کے آبائی وطن کے بارے میں کچھ بھی نہیں بتایا گیا ہے تاہم طبی ادارے کا کہنا ہے کہ انھیں اموات کا مکمل علم نہیں ہے لیکن بمباری کے وقت اس جگہ 105 مریض اور ان کی خدمت میں حاضر افراد کے علاوہ 80 سے زیادہ سٹاف موجود تھے۔ادارے کا کہنا ہے کہ مرکز پر موجود زیادہ تر سٹاف افغان باشندے تھے۔ادارے کے ڈائریکٹر آپرشنز بارٹ جانسینس نے کہا تھا کہ ہم ان حملوں پر بہت غمزدہ ہیں کیونکہ اس میں ہمارے سٹاف اور مریضوں کی موت ہوئی ہے اور اس سے ہمارے ہسپتال کو شدید نقصان پہنچا ہے۔’2011 میں نیٹو فوج کے انخلا سے قبل ہی افغانستان میںانسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کے حوالے سے خدشات کا اظہار کردیا گیا تھا جو وقت کے ساتھ ساتھ ثابت ہو رہا ہے کہ افغانستان میں جنگی جرائم عروج پر ہیں ۔برطانوی امدادی ادارے اوکسفیم کا کہنا تھا کہ افغان سیکورٹی فورسز نیٹو سے سیکورٹی ذمہ داریاں لینے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ادارے نے خبردار کیا تھا کہ افغانستان کی سیکورٹی فورسز کو مزید تربیت کی ضرورت ہے جب کہ فورسز کی جانب سے فرنٹ لائن کی ذمہ داریاں سنبھالنے سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں اضافہ ہو سکتا ہے۔برطانوی امدادی ادارے اوکسفیم کی جانب سے ظاہر کئے جانے والے خدشات کو سنجیدگی سے نہیں لیا گیا اور مسلسل افغانستان میں جنگی جرائم میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔افغانستان میں سابق برطانوی سفیر سر شررڈ کوپر کولز نے اعتراف کیا کہ امریکی جنرل پٹریئس کی افغانستان کی جنگ کی حکمت عملی انتہائی غلط اور نقصان دہ تھی۔ہر وہ جنرل جو پشتونوں کی ہلاکت کے بارے میں شیخی مارتا ہے اسے اپنے آپ پر شرمندہ ہونا چاہیے۔
جنگی جرائم کے حوالے چند واقعات پر طائرانہ نظر ڈالی جائے تو کابل و امریکی حکومت کا کردار سنگین نظر آتا ہے کہ ان کی جانب سے جنگی جرائم کو چھپانے کی کوشش کی جاتی رہی ہے۔ جیسے افغانستان کے شمالی صوبے تخار کے شہر تالوقان میں نیٹو افواج کے حملے میں شہری ہلاکتوں کے خلاف عوامی احتجاج پر سکیورٹی فورسز نے مشتعل مظاہرین پر فائرنگ کی تھی جس سے بارہ افراد ہلاک اور اسّی زخمی ہوگئے تھے۔ تالوقان نامی شہر میں ہلاک ہونے والے افراد نیٹو اور افغان افواج کی جانب سے رات کو کیے گئے حملے کے خلاف احتجاج کر رہے تھے۔ دوسری جانب امریکی فوج کی موجودگی کے باوجود داعش کا فروغ پانا اور عام شہریوں اور مسلک کے نام پر جنگی جرائم کرنا بھی اہم نکتہ ہے کہ کابل حکومت اور امریکی مشیران افغانستان کو مسلکی خانہ جنگی میں بھی الجھنا چاہتے ہیں کیونکہ اس سے قبل مسلکی بنیادوں پر افغانستان میں مساجد کو نشانہ نہیں بنایا گیا ۔لیکن خانہ جنگی کے لئے داعش نے مسلکی نوعیت کے جنگی جرائم کئے ۔ بڑے واقعات میں اکتوبر 2017دارالحکومت کابل کے مغربی حصے میں واقع امامِ زمانہ مسجد پر ہونے والے خود کش حملے میں کم از کم 39 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ اس کے علاوہ افعانستان کے مرکزی صوبے غور میں ایک اور مسجد پر ہونے والے حملے میں 20 افراد ہلاک ہو گئے ہیں۔شدت پسند تنظیم دولتِ اسلامیہ نے کابل میں ہونے والے حملے کی ذمہ داری قبول کی تھی۔ بیس اگست کو کابل میں نمازیوں پر ہونے والے ایک حملے میں 20 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔
گزشتہ سال مئی میں کابل میں ہونے والے ایک ٹرک بم حملے میں 150 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔کابل میں شیعہ برادری کو بم دھماکے میں اس وقت نشانہ بنایا گیا تھا جب وہ سخی مزارپر جمع تھے۔اقوامِ متحدہ نے اس حملے کو سفاکانہ قرار دیا تھا اور ہلاکتوں کی تعداد 18 بتائی تھی۔ 2011 میں محرم کے دوران بھی کابل میں حملے کے نتیجے میں 80 افراد ہلاک ہوگیے تھے۔ ان حملوں کی ذمہ داری شدت پسند گروہ دولتِ اسلامیہ ( داعش) نے قبول کی تھی۔افغانستان میں قائم اقوام متحدہ کے دفتر ”یوناما” نے بھی اپنی ایک سالانہ رپورٹ جاری کی جس میں بتایا گیا کہ پچھلے دس سالوں میں 76 ہزار افغان ہلاک ہوئے۔واضح رہے کہ 2001 سے اب تک افغانستان 3 ہزار 480 غیر ملکی فوجی بھی ہلاک ہوئے ہیں جن میں سے 2ہزار 346 کا تعلق امریکی افواج سے بتایا جاتاہے۔اقوام متحدہ کے ایک معاون ادارے نے کہا ہے کہ 2016میں افغانستان میں حملوں میں تین ہزار 498 افراد ہلاک ہوئے۔افغانستان میں اقوام متحدہ کے معاونتی مشن(یوناما) نے 2016 کے دوران سویلین ہلاکتوں سے متعلق سالانہ رپورٹ جاری کی تھی۔رپورٹ کے مطابق یکم جنوری 2016 سے 31 دسمبر2016 تک افغانستان میں تین ہزار498 افراد مارے گئے اور سات ہزار 920 افراد زخمی ہوئے۔افغانستان میں داعش کے داخلے کے باعث اس برس ہلاکتوں میں 10 گنا اضافہ ہوا ہے۔طالبان کے حملوں میں ایک ہزار618 ہلاکتیں ہوئیں،جبکہ تین ہزار 335 افراد زخمی ہوئے۔ داعش کے حملوں میں209 افراد ہلاک اور 690 زخمی ہوئے۔ امارات اسلامیہ مساجد، عوامی مقامات و مفاد عامہ کے منصوبوں اور عوام شہریوں پر حملوں کی مخالفت و مذمت کرتی رہی ہے ان کا موقف ہے کہ ہسپتالوں، مساجد اور مظاہروں میں جو افراد دھماکے کرواتے اور کروارہے ہیں، یہ سب کابل انتظامیہ کے اعلی حکام کے مطابق اسی انتظامیہ کے ایوانوں میں تربیت پاکر لیس کیے جاتے ہیں۔ اس حکمت عملی کو وہ مؤثر سمجھتی ہے اور کہتے ہیں کہ اب اس طرح افراد کو منظم کرنے سے طالبان کا روک تھام کرینگے۔
افغانستان میں جنگی جرائم کے حوالے سے تفصیلات کا ایک انبار ہے ۔ امریکی طیاروں کی بمباریوں میں عام شہریوں ، مساجد و عوامی مقامات پر بمباریوں سے لیکر داعش کی جانب سے مساجد و عوامی مقامات پر خود کش حملوں میں جانی و مالی نقصانات کا اندازہ نہیں لگایا جاسکتا ۔ امارات اسلامیہ ( افغان طالبان) کی جانب سے افغان سیکورٹی فورسز سمیت امریکی و نیٹو افواج پر حملوں میں بھی بڑی ہلاکتیں واقع ہوئی ہیں۔ تاہم جنگی ماحول میں گروپوں کے مسلح فورسز اورمزاحمت کاروں کی ہلاکتوں کے معاملے سے زیادہ اہمیت اس بات کو دی جاتی ہے کہ کسی بھی مسلح گروپ کی جانب سے عام شہریوں اور مقامات کو دانستہ نقصان پہنچایا گیا ہے یا پھر جنگ میں کئے جانے والے حملوں کی زد میں آئے ہیں۔ بالا سطور میں انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ، بین الاقوامی عدالت ِ انصاف اوربین الاقوامی فوجداری عدالت نے گزشتہ ہفتوں میں اپنی اس بات پر اپنے سخت تحفظات کا اظہار کیا ہے کہ افغانستان میں جنگی جرائم شدید نوعیت کے ہو رہے ہیں اور باقاعدہ 11 لاکھ سے زاید دستاویزات بھی ان کے پاس جمع ہوئی ہیں۔
افغانستان میں غیر جانبدار انہ تحقیقات کرنا ایک مشکل کام ہے کیونکہ اقوام متحدہ کے ادارے کابل و امریکی حکومت کی منشا اور منظوری کے بغیر متاثرہ علاقوں میں جا کر شواہد حاصل نہیں کرسکتی۔ امارات اسلامیہ اپنے بیانات میں عام شہریوں ، مساجد و مدارس میں کئے جانے والی بمباریوں میں جانی و مالی نقصانات سے تسلسل کے ساتھ آگاہ کرتی رہتی ہے ۔ چونکہ افغان طالبان امریکا مخالف گروپ ہے اس لئے ان کے بیانیہ کو کابل حکومت و امریکا کی جانب سے رد کیا جاتا ہے۔ کابل حکومت افغان طالبان کی جانب سے حملوں میں عموماََ عام شہریوں کی ہلاکتوں کی بابت بیانات جاری کرتی ہے لیکن دیکھا یہ گیا ہے کہ ان مقامات پر کئی کئی گھنٹے آزاد میڈیا کو داخل نہیں ہونے دیا جاتا ۔ جس کی وجہ سے اصل حقائق غیر جانبدار نہیں کہلائے جا سکتے ۔افغانستان میں میڈیا کو شدید مشکلات کا سامنا بھی ہے اور انہیں آزاد ذرائع سے اپنی رپورٹس دینے میں سنگین دشواریوں کا سامنا رہتا ہے۔ دوسری جانب امریکی فنڈنگ سے چلنے والے بعض میڈیا ہاوسز واقعات کی غلط تشریح کرکے اصل حقائق کو چھپانے کی بھی کوشش کرتے ہیں جس کی وجہ سے اقوام عالم تک امریکی جنگی جرائم کا پردہ مکمل منکشف نہیں ہوتا ۔ لیکن اس کے باوجود انسانی حقوق کی عالمی تنظیم سمیت کئی عالمی اداروں نے کابل و امریکی فورسز کی جانب سے انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں اور جنگی جرائم کا پردہ چاک کیا ہے اور اپنی رپورٹس مرتب کرکے عالمی ادارہ برائے انسانی حقوق اقوام متحدہ کو ارسال کیں ہیں لیکن انہیں افغانستان میں شفاف تحقیقات کے لئے محفوظ ماحول سمیت باقاعدہ اجازت دینے میں تامل کا مظاہرہ کیا جارہا ہے۔ امریکی افواج کی جانب سے قندوز میں غیر جانبدار غیر ملکی اسپتال بین الاقوامی تنظیم میڈیسنز سانز فرنٹیئرز (ایم ایس ایف) پر بہیمانہ بمباری کئے جانے جیسے واقعات کا سامنے آنا ثابت کرتا ہے کہ افغان سیکورٹی فورسز اور امریکی فوجیوں کی جانب سے عام شہری تو کیا اسپتال بھی محفوظ نہیں ہیں۔ علاوہ ازیں کابل حکومت کی جانب سے عام شہریوں کو بغیر کسی ثبوت کے غیر مصدقہ اطلاعات پر رشوت کی وصولی کیلئے گرفتار کرنے اور ان گنت افغان شہریوں کو بغیر مقدمہ چلائے جیلوں میں رکھے جانے کے ان گنت واقعات ہیں۔ جن کی سنوائی کرنے والا کوئی نہیں ہے۔تو قع تو نہیں کی جاسکتی کہ عالمی اداروں کو جنگی جرائم کی تحقیقات کے حوالے سے اجازت مل جائے ۔ اگر مل بھی جاتی ہے تو اس بات کی کوئی ضمانت نہیں کہ امریکا کے صدور کو جنگی جرائم کا ذمے دار قرار دیا جائے گا بلکہ خدشہ ہے کہ وہی ہوگا جو امریکا چاہے گا۔