واشنگٹن (جیوڈیسک) جاجان افغان قومی پولیس کے ایک اہل کار ہیں۔ وہ صوبہ جنوبی ارزگان کے صوبائی دارالحکومت میں اپنی ملازمت کی جگہ سے گھر کا سفر کر رہے تھے، تاکہ اپنے اہل خانہ کے ساتھ چند روز گزار سکیں، جب وہ طالبان کے حملے کی زد میں آئے۔
جان نے کہا کہ ’’میں مسلح تھا، اور مجھے پتا تھا کہ مجھ پر حملہ ہو سکتا ہے۔ پلک جھپکتے، میں نے اُن کو نشانہ بنانے کا فیصلہ کیا۔ ہم نے فائر کا تبادلہ کیا، اور چند منٹوں کے اندر اندر میں زخمی ہوگیا۔ خوش قسمتی سے میری چوکی زیادہ دور نہیں تھی، اور میری مدد کے لیے کمک پہنچ گئی۔ جب میرے دوست پہنچے تو باغی اُٹھ کھڑے ہوئے‘‘۔
جان کے کاندھے پر زخمی آئے۔ ہنگامی طور پر طبی امداد فراہم ہوئی، جس کے بعد اُنھیں ہمسایہ صوبہٴ قندھار کے ایک اسپتال پہنچایا گیا، جو ڈھائی گھنٹے کے فاصلے پر تھا، جہاں جراحی کا عمل ہوا۔ جان کی زندگی بچ گئی، جس کے بعد وہ پھر افغانستان کی لڑائی کے اگلے محاذ پر فرائض انجام دینے لگا۔
جان کے متعدد ساتھی اتنے خوش نصیب نہیں۔ جب سنہ 2014میں بیرونی فوجوں کا اگلے مورچوں سے انخلا ہوا، افغان سکیورٹی فورسز کو بیشمار چیلنج درپیش آچکے ہیں۔
پریشان کن اعداد و شمار
اس سے قبل، ایک رپورٹ میں امریکی فوجی تجزیہ کارون نے بتایا کہ سال 2016ء میں جنوری سے مئی کے درمیان حکومت نے تقریباً پانچ فی صد علاقے پر یا تو کنٹرول گنوایا یا پھر اُس کا اثر و رسوخ ڈھیلا پڑ گیا۔ ایک اعلیٰ امریکی کمانڈر نے کہا ہے کہ افغان افواج کی اِس سال جولائی میں 900 سے زائد ہلاکتیں واقع ہوئیں۔
تاہم، امریکی محکمہٴ دفاع نے خبر دی ہے کہ سال 2014ءکے مقابلے میں جنوری سے نومبر 2015 کے دوران افغان سکیورٹی افواج کی ہلاکتوں کی تعداد میں 27 فی صد کا اضافہ ہوا۔ اس سال جون کی ایک حالیہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ہلاکتوں کی تعداد میں اضافہ آتا جا رہا ہے، جب کہ اصل تعداد نہیں بتائی گئی۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ42 فی صد افغانوں کا کہنا ہے کہ اب سکیورٹی طالبان کے سابق دور سے بھی بدتر ہوچکی ہے۔
علی احمد جلالی، کرزئی انتظامیہ کے دور میں وزیر داخلہ رہ چکے ہیں؛ اور اِن دِنوں، نیشنل ڈفنس یونیورسٹی، واشنگٹن ڈی سی میں پروفیسر ہیں۔ اُنھوں نے کہا ہے کہ کسی حد تک یہ بات درست ہے کہ اس کی وجہ بین الاقوامی افواج کے باعث ہوئی جو اب زیادہ تر مشاورت کا کردار ادا کر رہی ہیں۔
جلالی نے بتایا کہ ’’یہ ایک پیچیدہ صورت حال ہے۔ سب سے پہلے، یہ دوسرا سال ہے کہ بین الاقوامی افواج کی تھوڑی سی مدد کے ساتھ افغان افواج باغیوں سے نبرد آزما ہیں۔ دوسری جانب، افغان فضائی فوج کی استعداد محدود ہے۔ طالبان نے اپنی کارروائیاں تیز کردی ہیں، یہ خیال کرتے ہوئے کہ چونکہ بین الاقوامی افواج موجود نہیں وہ متعدد اضلاع اور صوبوں میں گھس سکتے ہیں‘‘۔
باغی گروپ اسے موقع گردانتے ہیں
کچھ مبصرین کا کہنا ہے کہ اُس وقت امریکی قیادت والی نیٹو افواج سال 2014ء کے دسمبر کے آخر میں اپنا لڑاکا مشن بند کر رہی تھیں، داعش جیسے دیگر گروہوں نے افغانستان کو نشانہ بنانا شروع کیا۔
افغان وزارت دفاع کے ترجمان، جنرل محمد ردمانیش نے کہا ہے کہ ’’یہ خطرات نہ صرف باغیوں سے ہیں، جو غیرملکی ایجنڈا پر عمل پیرا ہیں، بلکہ ہمارے لیے ضروری ہے کہ ہم دنیا بھر میں جاری انٹیلی جنس کی ’پراکسی‘ جنگ و جدل اور دہشت گردی سے چوکنہ رہیں۔ افریقہ سے مشرق وسطیٰ، اور جنوب اور وسط ایشیا تک دہشت گردوں کی تمام تر کوشش ہے کہ وہ محفوظ ٹھکانوں کی تلاش میں افغانستان کا رُخ کریں‘‘۔
اُنھوں نے کہا کہ ’’ہمسایہ ملکوں کے مدارس (مذہبی اسکول) افغانستان میں دہشت گرد برآمد کرنے کا ذریعہ ہیں، تاکہ ملک میں عدم استحکام پیدا کیا جائے‘‘۔
ایسے گروپوں سے نمٹنے کی ذمہ داری، زیادہ تر معاملات میں پولیس کی ہوتی ہے، جنھیں قانون کے نفاذ کے لیے، انسداد بغاوت کی کارروائیوں کا حصہ بننا پڑتا ہے۔
زلمے وردک کابل میں دفاعی تجزیہ کار ہیں۔ اُن جیسے ناقدین کا کہنا ہے کہ درپیش چیلنج قیادت میں خامی کے باعث مزید بڑھ جاتا ہے۔