اسلام آباد (جیوڈیسک) افغانستان کے شمالی صوبے سری پل میں ایک گاؤں پر شدت پسندوں کے حملے میں خواتین اور بچوں سمیت کم از کم 50 افراد ہلاک ہوگئے ہیں۔
صوبائی گورنر کے ترجمان ذبیح اللہ امانی نے اتوار کو صحافیوں کو بتایا ہے کہ حملہ ہفتے اور اتوار کی درمیانی شب ضلع سیاد کے مرزا اولانگ نامی علاقے میں کیا گیا تھا۔
ترجمان نے بتایا ہے کہ شدت پسندوں نے علاقے میں واقع ایک چوکی پر حملہ کیا تھا جس کے بعد انہوں نے گاو ٔں کے 30 گھروں کو بھی نذرِ آتش کردیا۔
علاقے سے ملنے والی اطلاعات کے مطابق ہلاک ہونے والوں میں بچے، خواتین اور بزرگ شامل ہیں جن میں سے بیشتر کا تعلق شیعہ ہزارہ کمیونٹی سے ہے۔
صوبائی ترجمان نے صحافیوں کو بتایا ہے کہ شدت پسندوں نے ان تمام افراد کو انتہائی ظالمانہ اور وحشیانہ طریقے سے قتل کیا۔
حملے میں افغان سکیورٹی فورسز کے سات اہلکار اور کئی حملہ آور بھی ہلاک ہوئے ہیں۔
حملے کی تفصیلات واضح نہیں ہیں اور نہ ہی حملہ آوروں کی شناخت ہوسکی ہے۔ البتہ ذبیح اللہ امانی نے دعویٰ کیا ہے کہ حملہ طالبان اور داعش کے شدت پسندوں نے مل کر کیا تھا۔
تاہم افغان طالبان نے حملے میں ملوث ہونے کے الزام کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہےکہ صوبائی حکومت ان کے خلاف پروپیگنڈا کر رہی ہے۔
گو کہ افغانستان میں طالبان اور داعش ایک دوسرے کے دشمن ہیں لیکن دونوں گروہوں کے جنگجووں کے ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرنے اور وفاداریاں تبدیل کرنے کے واقعات بھی رپورٹ ہوتے رہے ہیں۔
کابل میں افغان حکومت کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے کہا ہے کہ حملے کی اطلاع کے بعد سکیورٹی فورسز کے دستے اور افغان فضائیہ کا ایک جنگی جہاز علاقے میں بھیج دیے گئے ہیں۔
افغانستان میں جاری خانہ جنگی اور لڑائی میں رواں سال شدت آئی ہے اور اب تک جنگجو سرکاری تنصیبات، غیر ملکی افواج اور دیگر اہداف پر کئی بڑے حملے کرچکے ہیں۔
اقوامِ متحدہ کے مطابق رواں سال کے ابتدائی چھ ماہ میں افغانستان میں جاری شورش میں 1662 عام شہری ہلاک اور 3581 زخمی ہوئے ہیں۔ یہ تعداد گزشتہ برسوں کے مقابلے میں کافی زیادہ ہے۔