قندھار (اصل میڈیا ڈیسک) افغانستان کے جنوبی شہر قندھار میں جمعے کے روز ایک شیعہ مسجد میں ہوئے بم دھماکے میں ہلاکتوں کی تعداد 37 ہو گئی ہے جبکہ ستر سے زائد زخمی ہوئے ہیں۔ یہ بم دھماکا ٹھیک اس وقت ہوا جب مسجد میں نماز جمعہ ادا کی جا رہی تھی۔
بتایا گیا ہے کہ اس بم دھماکے کا ہدف صوبے کی سب سے بڑی شیعہ مسجد بنی۔ طبی ذرائع کے مطابق اس دھماکے کے نتیجے میں 70 سے زائد افراد زخمی بھی ہوئے ہیں۔ اقوام متحدہ کے معاون مشن برائے افغانستان UNAMA نے امام باڑہ فاطمیہ مسجد پر ہوئے اس بم حملے کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایسے ظالمانہ واقعات میں ملوث ملزموں کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جانا چاہیے۔ طالبان کی جانب سے بھی اس حملے کو ‘بڑا جرم‘ قرار دیا گیا ہے۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ اس واقعے میں ملوث ملزمان کی گرفتاری کے لیے سکیورٹی فورسز کو فوری طور پر جائے واقعے کی جانب بھیج دیا گیا ہے۔
اس سے قبل طبی ذرائع نے واقعے میں ہلاکتوں کی تعداد 20 بتائی تھی جب کہ کہا جا رہا تھا کہ اس واقعے میں کم از کم تیس افراد زخمی ہوئے ہیں۔ تاہم حکام کا کہنا تھا کہ یہ تعداد ابتدائی ہے اور واقعے میں ہلاک اور زخمی ہونے والوں کی اصل تعداد بعد ہی میں بتائی جا سکے گی۔ فی الحال کسی گروہ نے اس حملے کی ذمہ داری قبول نہیں کی ہے، تاہم ماضی قریب میں افغانستان میں دہشت گردانہ کارروائیوں میں دہشت گرد تنظیم اسلامک اسٹیٹ ملوث رہی ہے۔
واقعے کے بعد سوشل میڈیا پر شیئر کی جانے والی تصاویر میں دھماکے کی وجہ سے مسجد کو پہنچنے والے نقصان کے علاوہ جا بہ جا خون کے نشانات دکھائی دیتے ہیں۔ گزشتہ ایک ہفتے میں افغانستان میں شیعہ برادری پر ہونے والا یہ دوسرا خونریز حملہ تھا۔ فقط ایک ہفتہ قبل شمالی افغان شہر قندوز میں ایک شیعہ مسجد پر ہوئے خودکش حملے میں 40 سے زائد عبادت گزار ہلاک ہو گئے تھے۔ اس حملے کی ذمہ داری دہشت گرد تنظیم اسلامک اسٹیٹ نے قبول کی تھی۔
روسی صدر ولادیمیر پوٹن نے جمعے کے روز کہا کہ شمالی افغانستان میں دہشت گرد تنظیم ‘اسلامک اسٹیٹ‘ سے وابستہ سینکڑوں جنگجو جمع ہو رہے ہیں۔ پوٹن کا یہ بیان ایک ایسے موقع پر آیا ہے، جب روس اگلے ہفتے افغانستان کے موضوع پر بین الاقوامی بات چیت کی میزبانی کرنے جا رہا ہے۔ آئندہ منگل ہونے والے اس اجلاس میں امریکا، چین اور پاکستان کے نمائندے بھی شرکت کریں گے۔ افغانستان پر طالبان کے قبضے کے بعد افغانستان کے موضوع پر اس سطح کے لیے پہلے مذاکرات ہیں۔
جمعے کے روز پوٹن نے سابقہ سوویت ریاستوں کے رہنماؤں کے ساتھ ایک ویڈیو کانفرنس میں کہا، ”انٹیلی جنس کے مطابق شمالی افغانستان میں فقط اسلامک اسٹیٹ سے جڑے جنگجوؤں کی تعداد دو ہزار کے قریب ہے۔‘‘
انہوں نے مزید کہا کہ ان افراد کی کوشش ہے کہ مہاجروں کے روپ میں وسطیٰ ایشیائی ریاستوں میں پہنچا جائے۔ رواں ہفتے پوٹن نے خبردار کیا تھا کہ عراق اور شام میں لڑنے والے جنگجو افغانستان پہنچ سکتے ہیں۔ روسی وزارت خارجہ نے بھی کہا تھا کہ افغانستان پر قابض طالبان کو ان جنگجوؤں سے نمٹنے کا راستہ نکالنا چاہیے۔