تحریر : میر افسر امان اس میں کسی قسم کے شک و شبہ کی بات نہیں کہ افغانستان ہمارا برادر پڑوسی مسلمان ملک ہے۔جب اس پر روس نے حملہ کیا اور اپنی فوجیں اس میں داخل کی تو پاکستان کے عوام اور حکومت وقت نے اس کی مخالفت کی تھی اورافغان عوام کے ساتھ ملکی اور غیر ملکی سطح پر تعاون کیا تھا۔اصل بات عوام کی نہیں ہوتی پٹھو حکومتوں کی بات ہوتی ہے۔ پہلے روس نے ترکی سے وسط ایشیا کے مسلمان علاقعے فتح کیے تھے اور وہ اب وہ افغانستان کے راستے خلیج تک پہنچنا چاہتاتھا۔ افغانستان پر روس نے بہت سرمایا کاری کی تھی کہ اسے اپنا اشتراکی ہم خیال بنا لے۔اس کے لیے روس نے ظاہر شاہ، دائود اورآخری حکمران نجیب اللہ خان کو بہت مراعات دیں تھیں۔روس نے افغانستان اشتراکی نظام کے قیام کے لیے بھارت کو بھی اپنے ساتھ ملا لیا تھا ۔ سرحد کی ڈاکٹر خان کی حکومت اور اس کے بھائی سرحدی گاندھی غفار خان نے روس کا دل کھول کر ساتھ دیا۔
روس نے ان کے لیے خزانے کے منہ کھول دیے تھے۔ لوگ آزادانہ روس جا کر ٹرنینگ لے کر آتے تھے ۔ عوامی نیشنل پارٹی کے چوٹی کے کارکن جو پارٹی کی پالیسیوں سے انحراف کی وجہ سے علیحدہ ہو گئے تھے ۔جس کا نام کا جمعہ خان ہے جو ایک پائے کے مرکزی کارکن تھے نے تفصیل سے ان حالات و اقعات کا ذکراپنی کتاب میں بھی کیا ہے۔جب روس نے افغانستان میں اپنے ٹائوٹ ببرل کارمل کو ٹینکوں پر بیٹھا نے اپنی فوجیں افغانستان میں داخل کیں تو افغانستان کے اسلام پسند مسلمان رہنمائوں نے روس کے خلاف جہاد شروع کیا۔
پاکستان کے ذوالفقار علی بٹھو جو روس کے جارحانہ اقدامات کو سمجھتا تھا نے افغان رہنمائوں کی درخواست پر درے سے اسلحہ خرید کر ان کی مدد کی تھی۔تین سال تک افغانی اسی اسلحے سے روس کے خلاف جہاد کرتے رہے۔ پھر پاکستان کے ساتھ ساتھ پوری اسلامی دنیا کے مجائدین نے بھی اپنے اسلامی برادر ملک کی جہاد میں مدد کی تھی۔ امریکا اپنے مفادات اور روس کو شکست دینے کے لیے افغانستان کی جنگ میں کود پڑا۔ اور بلا آخر روس کو افغانستان سے نکلنا پڑا۔ روس ٹوٹ کیا اور اس میں سے چھ اسلامی ریاستیں اور مشرقی یورپ کی کئی ریاستیں روس سے آزاد ہوئی۔
Afghanistani Immigrants
جنگ کے دوران پچاس لاکھ افغانی پاکستان میں مہاجر بن کر آئے پاکستان کی حکومت اور عوام نے انہیں برادر اسلای ملک ہونے کے ناطے خوش آمدید کہا ان کی خدمت کی آج بھی تیس لاکھ ا فغانی مہاجرین پاکستان میں موجود ہیں۔ روس کے ساتھ جنگ کے دوران امریکی مدد کی وجہ سے امریکا کا دخل افغانستان میں بڑھ گیا تھا اس لیے اس نے مداخلت کر کے افغان مجائدین کو آپس میں لڑا دیا ملک میں خانہ جگی شروع ہو گئی۔پھر اللہ کا کرنا کی افغانستان میں طالبان کھڑے ہو گئے۔ سفید پر چم لیکر پورے افغانستان میں سے خانہ جنگی ختم کی اور ملک پر قابض ہو گئے۔ جنگ جوئوں سے اسلحہ واپس لے لیا۔ افغانستان میں امن و امان قائم ہو گیا۔
پوست کی کاشت ختم ہو گئی۔ ملا عمر کو اپنا امیر المومنین مان لیا۔ ملا عمر نے ایک امارت اسلامی کے قیام کا اعلان کر دیا۔پاکستان اور سعودی عرب نے اس نئی اسلامی حکومت کو تسلیم کر لیا۔ امریکا کو یہ بات پسند نہ آئی اور اپنے ہی ملک میں یہودیوں کی مدد سے نائین الیون کا خود ساختہ واقعہ کیا اور امریکی صدر بش نے اس کا ذمہ دار اسامہ بن لادن کو قرار دے کر مسلمانوں کے خلاف صلیبی جنگ کا اعلان کر دیا۔ اسامہ کے بہانے افغانستان پر ٤٨ نیٹو فوجوں کے ساتھ حملہ کر دیا اور پورے افغانستان پر بمباری کر کے اسے تورہ بورا بنا دیا۔١٥ سال جنگ کے باوجود افغانستان پر قبضہ مکمل نہیں کر سکا۔
ایک ایک کر کے اس کے اتحادی نیٹو فوجیں افغانستان سے بوریا بستر لے کر چلیں گیں۔ اب بھی ٧٥ فی صد افغانستان پر طالبان کا قبضہ ہے۔ اپنی شکست تسلیم کرنے کے بجائے اب پاکستان کی فوج سے کہتا ہے کہ تم افغان طالبان سے لڑو۔ قوم کے غدار ڈکٹیٹر پرویز مشرف کی پہلے ہی بزدلی سے پاکستان میں امریکا کو مداخلت کا موقع ملا تھا۔ اب ہمارے فوج عوام کی ترجمانی کرتے ہوئے امریکا کی ڈکٹیشن ماننے کے لیے تیار نہیں ۔ جنرل اسلم بیگ نے اپنے حالیہ مضمون میں اس بات کو کہا ہے کہ ملا عمر نے کہا تھا کہ پاکستان نے امریکا کو سہولتیں دے کر افغانستان کو تباہ کیا مگر ہم اب بھی پاکستان کو برادر اسلامی ملک سمجھتے ہیں۔
Torkham Border
افغانستان کی امریکی پٹھو بھارت کے اُکسانے پر طور خم پر پاکستان کی سرحد کے اندر سیکورٹی گیٹ بنانے پر فائرنگ کرتی رہی ہے اور ہمارے ایک میجر کو شہید کیا اور ١٩ دوسرے لوگوں کوزخمی کیا۔ پہلے افغان روس کی پٹھو تھی اب امریکا کی ہے۔ اس سے قبل افغانستان کی ساری سوشلسٹ حکومتیں سرحدی گاندھی ، بھارت اور روس کی ایما پر پاکستان کی مخالف تھیں اور ہمیشہ پختونستان کا مسئلہ کھڑا کیا رکھاتھا۔ طالبان کی حکومت آنے سے یہ مسئلہ ختم ہو گیا تھا۔ پاکستان اور افغانستان کے تعلوقات تاریخ میں پہلی دفعہ دوستانہ ہو گئے۔ پاکستان کی مغربی سرحد پر امن ہو گئی۔
افغان طالبان اپنے ملک کو آزاد کرانے کے لیے امریکی فوجوں سے لڑرہے ہیں یہ ان کا اندرونی معاملہ ہے ۔ پاکستان کو اس میں مداخلت نہیں کرنی چاہیے۔افغان کبھی بھی کسی کے غلا م نہیں رہے ہیں اس لیے امریکا کے لیے بہتر ہے کہ وہ دنیا سے اپنے وعدے کے مطابق افغانستان سے جیسے روس گیا تھا وہ بھی نکل جائے ورنہ جو افغان چالیس سال سے بیرونی حملہ آوروں سے لڑ رہے ہیں آیندہ بھی لڑ نے کے لیے تازہ دم ہیں۔
جہاں تک پاکستان کے تعلق ہے تو وہ افغانستان کا برادر اسلامی ملک ہے۔افغانی پورے پاکستان میں آباد ہیں۔ کاروبار کر رہے ہیں ۔پراپرٹیز خرید رہے ہیں اور برسوں سے ان پراپرٹیز کے مالک ہیں۔دنیا کی کوئی بھی طاقت ان دو برادر ملکوں کی دوستی میں رکاوٹ نہیں ڈال سکتی۔ اشرف غنی کی امریکی پٹھو حکومت کے چند دن ہیں اس کو افغان طالبان ختم کر دیں گے انشا اللہ اور افغانستان آزاد ہو گا۔ پھر سے امن و امان ہو گا۔