افغانستان میں سی ای اے کے خفیہ اڈے بند ہونا شروع

CIA

CIA

واشنگٹن (جیوڈیسک) ملٹری ڈرونز فلائٹس پاکستان منتقل کرنے کی تجویز زیرغور، ڈرون حملوں کا اختیار دیا پاکستان کو دیا جانے کا امکان، انسداد دہشت گردی کے آپریشنز دس سال یا اس سے زیادہ عرصے تک جاری رہیں گے: امریکی اخبار کا دعوی امریکی خفیہ ادارے سی آئی اے نے افغانستان میں اپنے خفیہ اڈے بند کرنے شروع کر دیے ہیں۔

اوباما انتظامیہ کے سینئر عہدیدار نے کہا کہ افغانستان اور اسلام آباد کے ساتھ امریکی فوجیوں کی تعداد کی بات چیت میں ملٹری ڈرونز فلائٹس پاکستان منتقل کرنے کی تجویز دی جاسکتی ہے۔ امریکی اخبارواشنگٹن پوسٹ لکھتا ہے کہ اسلام آباد کے ساتھ مذاکرات میں پاکستان کو ڈرون حملوں کا اختیار دیا جاسکتا ہے۔ حکام کا کہنا ہے کہ پاکستان کی طرف سے ڈرون حملوں کی رضامندی کا مسئلہ مشکوک تو ہے لیکن ناممکن نہیں۔

اسلام آباد نے باضابطہ طور پر ڈرون پروگرام پر اپنے تعاون کا اعتراف کبھی نہیں کیا ہے۔ امریکی فوج اور سی آئی اے اہلکاروں کی واپسی کے باوجود پاکستان سمیت دیگر علاقوں میں کئی سالوں تک ڈرون حملے جاری رہیں گے۔ سپیشل آپریشن کے سنیئر اہلکار کا کہنا ہے کہ انسداد دہشت گردی کے آپریشنز دس سال یا اس سے زیادہ عرصے تک جاری رہیں گے۔ سی آئی اے نے کابل میں نئے چیف سٹیشن کی تعیناتی کی ہے جو اس خطے میں پہلے کبھی تعینات نہیں رہا۔

سی آئی اے ہیڈ کوارٹرز میں ملٹری پوزیشنوں میں بھی تبدیلی کی جا رہی ہے۔ کابل کے علاوہ بگرام، قندھار، مزارشریف، جلال آباد اور ہیرات سے سی آئی اے کے اہلکاروں کو واپس بلانے کی منصوبہ بندی ہے۔ بند ہونے والے بیسز میں پاکستانی سرحد کے ساتھ سی آئی اے وہ بیس بھی شامل ہے جو قبائلی علاقے میں ڈرونز آپریشن کی نگرانی کرتا ہے۔ ڈرون آپریشن کے لئے فوجیوں کی تعداد بھی ایڈمنسٹریشن کی مشاورت میں شامل ہے۔ پاکستان میں ڈرون حملوں کی تعداد کو پہلے ہی کم کیا جا چکا ہے۔

اس سال صرف سترہ حملے کئے گئے جب کہ 2010 میں 117 حملے کئے گئے۔ امریکی انتظامیہ کے سینئر اہلکار کا کہنا ہے 2014 کے بعد افغانستان اور پاکستان کی نسبت شمالی افریقا اور یمن کے خطرات زیادہ ہوں گے۔ ان کے وسائل اس کا مقابلہ نہیں کر پائیں گے۔ حکام اس بات پر زور دیتے ہیں کہ 2014 کے بعد بھی دنیا کا سب سے بڑا سی آئی اے کا سٹیشن کابل ہی رہے گا اور پاکستان کے قبائلی علاقوں پر گشت کے لئے ڈرون کا ایک بیڑا بھی افغانستان میں موجود رہے گا۔

اخبار لکھتا ہے کہ افغان خطے میں سی آئی اے کی موجودگی میں کمی اس بات کی عکاسی ہے کہ ایجنسی اپنے روایتی کام انٹیلی جنس سروس پر توجہ دے گی جو سرد جنگ سے اس خطے میں ایک انسداد دہشت گردی فورس میں تبدیل ہو چکی تھی اور اس کی اپنی جیلیں، پیرا ملٹری ٹیمیں اور مسلح ڈرونز تھے۔ سی آئی اے کی منتقلی ایسے اہم موڑ کو بھی واضح کرتی ہے کہ ایجنسی اپنے وسائل کسی دوسرے خطے میں منتقل کر رہی ہے۔

افغانستان میں سی آئی اے کی تنصیبات کی تعداد کم کرنے کا یہ ابتدائی منصوبہ ہے۔ امریکی حکام کا کہنا ہے کہ آئندہ دو برسوں میں سی آئی اے کے بیسز کو ایک درجن سے کم کرکے تقریبا چھ تک کر دیا جائے گا۔ سینئر امریکی انٹیلی جنس اور انتظامیہ حکام کا کہنا ہے کہ خطے میں سی آئی اے کی کمی پہلے ہی تاخیر کا شکار ہو چکی ہے۔ اب افغان خطے میں القاعدہ سے امریکا کو زیاد ہ خطرات نہیں رہے لہذا اس لحاظ سے یہاں امریکی جاسوسی اقدامات کا تناسب زیادہ ہے۔

مشرق وسطی کی نگرانی اور شام میں باغیوں کو ہتھیاروں کی فراہمی اب سی آئی اے کو القاعدہ سے بڑے چیلینجز دکھائی دیتے ہیں۔ سی آئی اے کے نئے ڈائریکٹر جان برینن اس خواہش کا اظہار کرچکے کہ ایجنسی روایتی جاسوسی کاموں پر توجہ بحال کریں گی۔ اوباما کے فیصلے پر یہ انحصار کرے گا کہ 2014 کے بعد افغانستان میں فوجیوں کی تعداد کتنی ہوگی۔

سی آئی اے کے حجم میں کتنی اور کب کمی کرنا ہے۔ اگلے سال افغانستان میں امریکی فوجیوں کی تعداد 63 ہزار سے کم ہوکر 10 ہزار ہونے کی توقع ہے تاہم کرزئی کے ساتھ بڑھتی ہوئی مایوسی سے زیرو آپشن کا اشارہ بھی دیا جا رہا ہے۔ سی آئی اے کو کرزئی کے ساتھ گفت و شنید کا منفرد مقام حاصل ہے۔