افغانستان کا افراتفری سے بھرا سال اور غیر مستحکم مستقبل

Afghanistan

Afghanistan

افغانستان (اصل میڈیا ڈیسک) اس میں کوئی شک نہیں کہ سن 2021 افغانستان کے لیے افراتفری سے بھرا ہوا سال تھا۔ افغانستان کے بے بہا مسائل اور پریشانیوں میں کمی کا کوئی امکان نہیں بلکہ موسم سرما نے ان کی شدت کو مزید بڑھا دیا ہے۔

گزشتہ برس طالبان نے حیران کن انداز میں اقتدار حاصل کر کے اقوام کو حیران کر دیا تھا۔ انتہا پسند مسلمان حاکم ٹولے کو رونما ہونے والے واقعات سنبھلنے نہیں دے رہے اور انہیں مستقبل کی بے یقینی کا بھی سامنا ہے۔ ابھی تک طالبان کا سب سے بڑا چیلنج عسکریت پسندوں کو ایک نئے انتظامی ڈھانچے میں ڈھالنا ہے، جس کے بعد ہی وہ پیچیدہ حکومتی عمل کو ایک نئی ہیت دیں سکیں گے۔

مغربی اقوام بشمول امریکا اور مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کو دو رخا خدشہ لاحق ہے۔ اس میں ایک حالات کے مزید ابتر ہونے پر ہزاروں افغان شہریوں کا دوسرے ممالک کی جانب مہاجرت اختیار کرنا اور دوسرے دہشت گرد گروپوں (القاعدہ وغیرہ) کا اس ملک میں دوبارہ سے محفوظ ٹھکانے بنانا شامل ہے۔

اس کے علاوہ طالبان کو عام افغان لوگوں کو خوراک، پناہ گاہوں اور روزگار کی فراہمی کو ترجیح دینا ہو گی۔ دوسری جانب خواتین کو خاص طور پر طالبان کی جابرانہ سماجی پالیسیوں کا بھی سامنا ہو سکتا ہے۔

افغانستان اینیلسٹس نیٹ ورک (اے اے این) کے لیے ایک رپورٹ میں تجزیہ کار کیٹ کلارک لکھتی ہیں کہ طالبان کے اقتدار سنبھالنے کے اثرات فوری طور پر تباہ کن تھے۔ انہوں نے مزید تحریر کیا کہ طالبان کے پاس بغیر امداد کے حکومتی نظم و نسق چلانے کا کوئی منصوبہ بھی نہیں تھا سوائے عسکری فتح کو مکمل کرنے کے۔

وہ مزید کہتی ہیں کہ عسکریت پسندی کے دور میں طالبان اپنے عمل دارانہ علاقوں میں عوام پر ٹیکس لگانے کے اہل تھے جب کہ بقیہ تمام پبلک سروسز کی ذمہ داری کابل حکومت، غیر حکومتی تنظیموں اور امداد فراہم کرنے والوں کے کندھوں پر تھی۔ کیٹ کلارک کا کہنا ہے کہ اب حکومت سنبھالنے کے بعد طالبان کو سرمایے کی قلت کا سامنا ہے اور ساری قوم کی نگہداشت بھی ان کی ذمہ داری میں شامل ہو چکی ہے۔

طالبان کو ملکی اقتدار سنبھالنے کے بعد جس سب سے بڑے مسئلے کا سامنا ہے وہ بیوروکریسی کا انہدام ہے۔ اگست کے بعد سے کئی سرکاری ملازمین کو تنخواہیں نہیں دی گئی ہیں اور نہ ہی انہیں خبر ہے کہ تنخواہین کب ادا کی جائیں گی۔

وزارت خارجہ کے درمیانے درجے کے ٹیکنوکریٹ حضراللہ کا کہنا ہے کہ وہ دفتر صبح جاتے ہیں لیکن کرنے کو کوئی کام نہیں ہوتا، پہلے وہ ہمسایہ ممالک کے ساتھ تجارتی معاملات کو دیکھتے تھے لیکن اب معاملات آگے بڑھانے کی ہدایات میسر نہیں ہیں اور کسی کو کچھ بھی معلوم نہیں۔

امریکی انخلا کے بعد ایک لاکھ بیس ہزار سے زائد افغان افراتفری کے ایام میں ملک کو خیرباد کہہ کر دوسرے ملکوں کا رخ کر چکے ہیں۔ ان میں زیادہ تر افراد غیر ملکی طاقتوں کے مقامی دفاتر کے ساتھ وابستہ رہتے ہوئے امداد کی تقسیم کی نگرانی اور ملکی معیشت کو سہارا دیے ہوئے تھے۔

یہ امر اہم ہے کہ افغانستان کے مستقبل کا تعین اُس کی انتہائی کمزور معشست سے ہی ہو گا اور ایسے میں ملک کے طول و عرض میں ایک بڑا انسانی بحران جنم لے چکا ہے۔ اس بحران کے حوالے سے اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ افغانستان کو بھوک کے طوفان کا سامنا ہے اور پچپن فیصد آبادی کو ہنگامی بحرانی صورت حال درپیش ہے۔ امداد دینے والے گہرے خدشات کا شکار ہیں۔

گزشتہ بدھ کو سلامتی کونسل نے افغانستان کے لیے انسانی امداد فراہم کرنے کی ایک قرار داد منظور کی ہے لیکن اس امدادی عمل میں بھی طالبان کو شامل کرنے کے بجائے باہر رکھا گیا ہے۔ طالبان نے سلامتی کونسل کے فیصلے کا خیرمقدم کیا ہے۔