افغانستان (اصل میڈیا ڈیسک) گیارہ ماہ سے طالبان کیساتھ دوحہ مذاکرات میں شریک، خواتین کے حقوق اور اسلامی قوانین کی ماہر فاطمہ گیلانی کا کہنا ہے کہ افغانستان کے سنگین بحران کے ذمہ داراشرف غنی اور جو بائیڈن ہیں۔ اشرف غنی کوانہوں نے’غدار‘ قرار دیا ہے۔
فاطمہ گیلانی ان چار خواتین میں سے ایک ہیں جو گیارہ ماہ تک قطری دارالحکومت دوحہ میں جاری رہنے والے طالبان امن مذاکرات میں شامل رہیں۔ 15 اگست کو سقوط کابل کے بعد فاطمہ نے ڈی ڈبلیو کے ساتھ ایک طویل انٹرویو میں سابق افغان صدر اشرف غنی کو ” قوم کا غدار‘‘ قرار دیا۔
66 سالہ فاطمہ گیلانی ماہر اسلامی قوانین اور خواتین کے حقوق کے لیے سرگرم ایک معتبر نام ہے۔ یہ سابق سوویت یونین کے خلاف جنگ میں مجاہدین کی ترجمان کی حیثیت سے خدمات انجام دیتی رہی تھیں۔ فاطمہ افغانستان کے ہلال احمر سوسائٹی کی سابقہ صدر بھی ہیں۔ انہوں نے مسلم کالج لندن سے اسلامیات اور علم اصول قوانین کی تعیلم حاصل کی اور ماسٹرز کی ڈگری لی۔ ان کا تعلق افغانستان کے ایک معروف مذہبی گھرانے سے ہے۔ ان کے والد نے انیس سو اسّی کی دہائی میں افغانستان پر سابق سویت یونین کے قبضے کے خلاف جنگ میں بطور مجاہدین لیڈر اہم کردار ادا کیا تھا۔ 2001 ء میں افغانستان پر امریکی قبضے اور طالبان حکومت کے خاتمے کے بعد فاطمہ گیلانی کو افغانستان کے آئین کی کمشنر مقرر کر دیا گیا اور انہوں نے اسلامی جمہوریہ افغانستان کے نئے آئین نویسی میں بھی اہم کردار ادا کیا۔
کابل میں طالبان کے قبضے کیساتھ ہی افغان حکومت، ملکی آئین اور تمام سیاسی نظام درہم برہم ہو کر رہ گیا۔ 26 اگست کو کابل ایئرپورٹ پر 100 سے زائد افراد کی ہلاکت کا سبب بننے والے بم دھماکے سے کچھ دیر قبل فاطمہ گیلانی سے اُن کی ملک کی صورتحال اور ان کے احساسات کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا،”میں شدید صدمے میں ہوں کیونکہ ہمارا ملک اقتدار کی منتقلی کے مرحلے سے بہت قریب تھا کہ اشرف غنی صاحب نے تمام چیزوں کو تباہ کر دیا۔ انہوں اپنی دولت کو محفوظ کرنے کے لیے تمام سیاسی عمل کو برباد کر دیا، ان کی اچانک روانگی سے جو افراتفری پھیلی اُس کے نتیجے میں جو بحران مچا وہ تمام دنیا کے سامنے ہے۔‘‘
ڈوئچے ویلے کی طرف سے فاطمہ سے یہ پوچھا گیا کہ گرچہ اس بارے میں مختلف افواہیں گردش کر رہی ہیں کہ اشرف غنی اور ان کے قریبی معاون کار جیسے کے ان کے سابق مشیر برائے سلامتی امور حمد اللہ مُحب بریف کیسوں میں ڈالر بھر کر اپنے ساتھ لے کر ملک سے نکل لیے، کیا یہ حقیقت ہے؟
اس کے جواب میں فاطمہ کہا کہنا تھا، ” اس کی تحقیقات ہونی چاہییں لیکن سوال یہ ہے کہ انہیں اتنی جلدی کیوں تھی جب انہیں اس کا یقین تھا کہ طالبان دوہفتوں تک کابل میں داخل نہیں ہوں گے، تب یہ اجلت کیسی؟ میں صرف یہ کہنا چاہتی ہوں کہ اس غدار کو کسی بھی صورت بغیر سزا کے نہیں چھوڑا جانا چاہیے۔‘‘ فاطمہ گیلانی نے مزید کہا کہ افغانستان کی تمام تر صورتحال کا ذمہ دار کسی ایک شخص کو نہیں ٹھہرایا جا سکتا کیونکہ افغانستان میں گزشتہ چار دہائیوں سے جاری جنگ اور تشدد کے واقعات کے ذمے داروں کی ایک پوری کڑی ہے۔ تاہم فاطمہ کا کہنا تھا،”حالیہ بحران اور افراتفری اور تباہی یقیناً اشرف غنی کی غلطیوں کا نتیجہ ہے۔‘‘
ڈی ڈبلیو کی طرف سے فاطمہ گیلانی سے یہ پوچھا گیا کہ دوحہ مذاکرات کے دوران گیارہ ماہ کے عرصے تک وہ طالبان اشرفیہ کے بہت قریب رہی ہیں، کیا طالبان پر اعتماد کیا جا سکتا ہے؟ اس کے جواب میں فاطمہ نے کہا،” طالبان خواتین کی معاشرتی اور سیاسی سرگرمیوں میں شمولیت اور عام معافی وغیرہ کی بات ضرور کرتے ہیں تاہم ہمیں مسلسل ٹارگٹ کلنگ اور سزائے موت وغیرہ جیسے مظالم کی معتبر خبریں مل رہی ہیں۔ طالبان کے قول اور فعل میں تضاد واضح نظر آ رہا ہے۔‘‘
فاطمہ کا کہنا ہے کہ افغانستان میں امن و امان کے لیے ایک ایسی حکومت سازی کی ضرورت ہے جس پر افغان عوام اعتماد رکھتے ہوں۔ افغانستان میں لگی آگ کے شعلوں کو بجھانے کے لیے افغان عوام کا اعتماد ہی کار آمد ثابت ہو سکتا ہے۔ تبدیلی اُسی وقت ممکن ہے جب افغان عوام کا حکمرانوں پر بھروسا بحال ہوگا، جب لوگ پُرسکون ہوں گے، تب ہی وہ سسٹم کو سپورٹ کریں گے۔ ”ہمیں یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ طالبان عسکری طور پر جیت گئے ہیں۔ اب ہم سب کو مل کر ملک میں امن لانا ہے۔ کوئی ایک فریق امن کی ضمانت نہیں دے سکتا۔ ‘‘
فاطمہ گیلانی نے اپنے ملک میں جنگ و جارحیت کے سبب عدم استحکام اور بدامنی کی مسلسل جاری صورتحال کا تاریخی جائزہ پیش کرتے ہوئے کہا،”ہم سابق سویت حکومت کو گرانے میں کامیاب ہو گئے لیکن کیا اس سے افغانستان میں امن آ گیا؟ نہیں، ہر گز نہیں، کیونکہ یہ یکطرفہ عمل تھا اور پھر دسمبر 2001 ء میں جرمنی میں بون افغانستان کانفرنس منعقد ہوئی جس میں ہم سب اکٹھے ہوئے لیکن اس میں طالبان شامل نہیں تھے۔ کیا ہم امن حاصل کر سکے؟ بالکل نہیں۔ ہم اسے کیوں دھرانا چاہتے ہیں، اس کا تجربہ ہم کر چُکے ہیں۔ اب ہمیں اپنا طرز عمل درست کرنا چاہیے۔‘‘اکتیس اگست کے بعد انخلا کی اجازت نہیں دیں گے، طالبان
فاطمہ گیلانی سے ملابرادر کے بارے میں پوچھے جانے والے ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا،”میں وہی کہوں گی جو میں نے دوحہ میں اُن سے رو برو کہا تھا۔ ” افغانستان کے مستقبل کے فیصلے میں ہمیں سب کو شامل کرنا ہوگا، مرد، خواتین، تمام لسانی گروپ، اسلام کے تمام فرقے، ہندو اور سکھ اقلیت۔ اگر ہم ایک حقیقی اسلامی ریاست کا دعویٰ کرنا چاہتے ہیں تو یہ وہ ملک ہونا چاہیے جس کی تعمیر کا حکم ہمارے پیغمبر نے ہمیں دیا تھا نہ کی ہماری اپنی زبان میں اس کی تشریح کی جائے۔‘‘
فاطمہ نے امریکی صدر جوبائیڈن کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کرنے کی گزارش پر یہ کلمات ادا کیے،” جناب صدر آپ نے افغانستان کے ساتھ جو کچھ کیا وہ محض لاپرواہی کا ثبوت تھا۔‘‘ فاطمہ نے دو ٹوک کہا کہ جس طرح وہ اشرف غنی کو کھلے عام ‘غدار‘ کہہ رہی ہیں اسی طرح وہ جو بائیڈن کو صاف الفاظ میں کہنا چاہتی ہیں کہ جو طریقہ کار انہوں نے اپنایا وہ کسی سُپر پاور کو زیب نہیں دیتا۔
فاطمہ گیلانی نے اپنے انٹرویو میں واضح الفاظ میں کہا کہ وہ افغانستان میں کسی غیر ملکی فوجی کو نہیں دیکھنا چاہتی تھیں۔ ان کا کہنا تھا، ”میں سب سے پہلے امن چاہتی تھی۔ جب ہم نے غیر ملکی افواج کے منظم ترتیب وار انخلا کے بارے میں بات کی تو ہمارا مطلب ہر گز یہ نہیں تھا کہ نیٹو فوجی تمام عمر افغانستان میں رہیں۔ ہر گز نہیں۔ آپ نے دوحہ میں افغانستان طالبان کے ساتھ ایک معاہدہ طے کیا تھا اور سیاسی تصفیہ اس کا حصہ تھا۔ کہاں گیا یہ سیاسی تصفیہ، کہاں ہے یہ؟‘‘