دوحہ ایک (اصل میڈیا ڈیسک) ایسے وقت جب طالبان کی پیش قدمی مزید زور پکڑتی جا رہی ہے، افغانستان میں موجود دنیا کے ایک درجن سے زائد سفارتی مشنوں نے طالبان سے لڑائی روک دینے کی اپیل کی ہے۔
افغانستان میں نیٹو کے نمائندوں کے علاوہ اب پندرہ سے کم ہی سفارتی مشن کام کر رہے ہیں جنہوں نے طالبان سے حملے بند کرنے اور لڑائی روکنے دینے کی پر زور اپیل کی ہے۔ دوحہ امن مذاکرات میں فریقین کے درمیان جنگ بندی کا کوئی معاہدہ نہیں ہو پا یا تھا جس کے بعد یہ مطالبہ سامنے آیا ہے۔
گزشتہ سنیچر اور اتوار کو قطر کے دارالحکومت دوحہ میں جو امن مذاکرات ہوئے تھے اس میں افغان حکومت اور طالبان کے نمائندوں نے شرکت کی تھی تاہم تمام کوششوں کے باوجود جنگ بندی کا کوئی معاہدہ طے نہیں پا سکا تھا۔
افغانستان میں تقریبا ًپندرہ سفارتی مشنوں کی جانب سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے، ”طالبان کی جانب سے ہونے والی کارروائیاں ان کے اس دعوے کی براہ راست نفی کرتے ہیں جس کے تحت وہ تنازعات کو مذاکرات کے ذریعہ حل کرنے اور دوحہ امن عمل کی حمایت کرنے کی بات کرتے ہیں۔”
اس بیان میں مزید کہا گیا، ”عید الاضحی کے موقع پر طالبان کو بہتری کے لیے اپنے ہتھیار ڈال دینے چاہیں اور دنیا کو یہ بتانا چاہیے کہ وہ واقعی امن عمل کے تئیں پر عزم ہیں۔” اس بیان کی دنیا کی دیگر حکومتوں کے ساتھ ساتھ امریکا، آسٹریلیا، کینیڈا، جرمنی، اور فرانس نے بھی حمایت کی ہے۔
افغانستان میں جب سے بیرونی افواج کے انخلا کا اعلان ہوا تبھی سے طالبان نے بغیر کوئی وقت ضائع کیے حکومتی فورسز پر حملوں کا سلسلہ شروع کر دیا،جو اب بھی جاری ہے۔ اس دوران طالبان نے کئی اہم علاقے حکومت سے چھین لیے ہیں اور نصف سے زائد ملک کا علاقہ اس وقت ان کے کنٹرول میں آ چکا ہے۔
گزشتہ روز ہی طالبان جنگجوؤں نے کابل کے جنوب میں صوبہ ارزگان کے دہراوؤڈ ضلعے کو اپنے قبضے میں لینے کا دعوی کیا تھا۔ طالبان صوبہ ہرات کے 17 ضلعے پہلے ہی اپنے قبضے میں لے چکے ہیں جبکہ شہر ہرات کا محاصرہ جاری ہے۔
افغان حکومت کے نمائندوں اور طالبان کی سیاسی قیادت نے کہا ہے کہ وہ دوحہ امن مذاکرات کے تحت پھر جلدی ہی بات چیت کے لیے ملیں گے۔ دونوں نے اس بات کی بھی یقین دہانی کرائی ہے کہ وہ سرکاری املاک کو کوئی نقصان نہیں پہنچائیں گے۔ امریکا نے افغانستان میں اپنی بیس سالہ جنگ کے خاتمے کا اعلان کر رکھا ہے اور 31 اگست تک وہ افغانستان کو چھوڑ کر چلا جائے گا۔