لاہور (جیوڈیسک) عمر خالد خراسانی کا تعلق کالعدم تحریک طالبان پاکستان سے تھا اور وہ مہمند ایجنسی کا رہنے والا تھا۔
تاہم تین چار برس قبل جب سکیورٹی فورسز نے فاٹا میں آپریشن شروع کیا تو وہ افغانستان چلا گیا تھا، جہاں حکیم اللہ محسود کے مارے جانے کے بعد ٹی ٹی پی کے کمزور ہوتے ہی عمر خالاد خراسانی نے اس سے الگ ہو کر جماعت الاحرار کے نام سے اپنی علیحدہ جماعت بنا لی تھی۔
عمر خالد خراسانی کا دھڑا کالعدم ٹی ٹی پی کا ایک طاقتور دھڑا سمجھا جاتا تھا جس کے را اور این ڈی ایس سے روابط تھے۔ عمر خالد پاکستان میں متعدد دہشتگرد حملوں میں ملوث تھا اور اس کا مارا جانا پاکستان کیلئے بڑی خبر ہے۔
سکیورٹی ماہرین توقع ظاہر کر رہے ہیں کہ عمر خالد کی ہلاکت کے بعد پاکستان مین دہشتگردی کے واقعات میں خاطر خواہ کمی ہو گی۔
ڈرون حملے میں عمر خالد خراسانی کے علاوہ جماعت الاحرار کے سات آٹھ دیگر اہم دہشتگرد کمانڈرز بھی مارے گئے ہیں۔ عمر خالد خراسانی پاکستان کے سب سے بڑے دشمنوں میں سے ایک تھا جو داعش کیلئے بھی نرم گوشہ رکھتا تھا۔
یاد رہے کہ فضل اللہ کے کالعدم ٹی ٹی پی کے سربراہ بننے کے بعد عمر خالد خراسانی یہ کہہ کر ٹی ٹی پی سے الگ ہو گیا تھا کہ اس نے دہشتگردی کی زیادہ کارروائیاں کی ہیں لہٰذا ٹی ٹی پی کی سربراہی اس کے پاس ہونی چاہئے۔