افغانستان (اصل میڈیا ڈیسک) شورش زدہ ملک افغانستان سے غیر ملکی فوجوں کے انخلا نے عدم استحکام کے ساتھ اقتصادی بحران بھی پیدا کر دیا ہے۔ اس ملک کے نئے حکمرانوں کے پاس اس گھمبیر صورت حال سے نمٹنے کی کتنی صلاحیت ہے، اس کا تعین ہونا ابھی باقی ہے۔
طالبان افغانستان کا کنٹرول سنبھال چکے ہیں اور ابھی وہ حکومت سازی کے لیے مشاورت کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ دوسری جانب عوام میں خوف و ہراس کے علاوہ طالبان حکومت سے فرار کی کوششوں میں ناکامی اور حالیہ خودکش حملے کے بعد انخلا کی پروازوں کے بند ہونے کی تاریخ قریب پہنچنے کی وجہ سے مایوسی اور بے چینی شدید تر ہو گئی ہے۔
امریکا اور مغربی اقوام کا انخلا کا عمل بھی اپنی تکمیل کی جانب بڑھ رہا ہے۔ امریکا نے واضح کر دیا ہے کہ پہلے امریکی فوجیوں کے انخلا کو مکمل کیا جائے گا اور اس کے بعد ہی افغان عوام کی منتقلی کے حوالے سے کوئی فیصلہ کیا جائے گا۔
سینکڑوں افغان شہریوں نے ہفتہ اٹھائیس اگست کو کابل میں ایک بینک کی عمارت کے سامنے شدید مظاہرہ کیا ہے۔ افغان دارالحکومت کابل میں کیش مشینوں پر بھی لوگوں کی قطاریں دیکھی جا سکتی ہیں۔
مظاہرین نے احتجاج نیو کابل بینک کے باہر کیا۔ ان مظاہرین میں سرکاری ملازمین بھی شامل تھے، جنہیں گزشتہ تین ماہ سے تنخواہیں ادا نہیں کی گئی ہیں۔
یہ بھی بتایا گیا ہے کہ طالبان کے کنٹرول حاصل کرنے کے بعد سب کچھ بند ہو گیا تھا اور اب بازار، دفاتر اور بینک کھلنا شروع ہو گئے ہیں۔ تین روز قبل بینکوں نے اپنے تالے ضرور کھولے ہیں لیکن وہ ابھی تک کسی بھی شخص کو نقد رقوم ادا نہیں کر رہے۔
خودکار کیش مشینیں کھلی ہیں لیکن ان میں سے یومیہ رقوم حاصل کرنے کی حد کو مزید کم کر دیا گیا ہے۔ اب کوئی ایک فرد چوبیس گھنٹوں میں صرف دو سو ڈالر کے مساوی رقوم نکال سکتا ہے۔
اس دوران اقوام متحدہ کی ایک اہم ایجنسی نے اس خطرے کا اظہار کیا ہے کہ موجودہ حالات سے اس ملک میں بھوک بڑھے گی اور قحط جیسی صورت حال جنم لے سکتی ہے۔
اقوام متحدہ کے روم میں قائم خوراک و زراعت کے بین الاقوامی ادارے ایف اے او کا کہنا ہے کہ افغانستان میں خوراک کے ذخیرے بھی بتدریج کم ہو رہے ہیں کیونکہ بیرونی دنیا سے خوراک اور مالی امداد کی سپلائی معطل ہو کر رہ گئی ہے۔
ادارے کے مطابق اگر اس طرف توجہ نہ دی گئی تو سات ملین افراد کو بھوک کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے اور ایک نئی پریشان کن صورت حال کا افغان عوام اور طالبان کو سامنا ہو گا۔
ایف اے او کے مطابق افغان عوام کو کورونا وبا کا بھی سامنا ہے اور بھوک کا زیادہ سامنا ان داخلی مہاجرین کو ہو گا جو اپنی جانیں بچا کر گھر بار کو چھوڑ چکے ہیں۔ اس ادارے کا کہنا کہ ہر تیسرا افغان شہری خوراک کی کمی کا سامنا کر رہا ہے۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ اقتصادی صورت حال خراب ہونے سے مغربی اقوام مالی امداد دینے کے تناظر میں طالبان سے ایک اعتدال پسندانہ حکومت قائم کرنے کا مطالبہ کر سکتے ہیں۔
دوسری جانب کابل ایئرپورٹ کے باہر خود کش حملے کے بعد بھی ایسے لوگوں کی بھیڑ جمع ہے، جو بیرون ملک جانے کے لیے بے چین ہیں۔
اٹلی کے وزیر اعظم ماریو دراگی کا کہنا ہے کہ عالمی برادری کو کسی بھی حالت میں افغان عوام اور خاص طور پر عورتوں بچوں کو بغیر کسی امداد کے نہیں چھوڑنا چاہیے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ اقوام متحدہ اور ہمسایہ ممالک کو افغان شہریوں کی ہر ممکن مدد کرنے کو نظرانداز نہیں کرنا چاہیے۔
دوسری جانب طالبان اپنے عوام کو بار بار ہدایت کر رہے ہیں کہ وہ ملک چھوڑنے کی راہ مت اختیار کریں اور واپس اپنے گھروں کو لوٹ جائیں کیونکہ حالات میں جلد سدھار پیدا ہو جائے گا۔