بیجنگ (جیوڈیسک) افغانستان کے صدر اشرف غنی نے چینی صدر شی جن پنگ سے ملاقات میں انتہاپسندوں کیخلاف لڑائی میں چین کی مدد کے عزم کا اظہار کیا ہے۔ ستمبر میں صدر بننے کے بعد اپنے پہلے 4 روزہ غیرملکی دورے میں اشرف غنی نے بیجنگ میں چینی صدر سے ملاقات کی۔
چین کو خدشات ہیں کہ افغانستان سے نیٹو فورسز کے انخلا کے بعد افغانستان میں بدامنی بڑھنے کا چین میں علیحدگی پسند مسلمان یغور فائدہ اُٹھا سکتے ہیں۔ چینی وزارت خارجہ کے ایشیا کے امور کے ڈیپارٹمنٹ کے ڈائریکٹر جنرل کونگ ژوان یو نے کہا اشرف غنی نے چین میں ایسٹ ترکستان اسلامک موومنٹ کے شدت پسندوں کیخلاف لڑائی میں افغانستان کی جانب سے حمایت کا اظہار کیا۔
کونگ کے مطابق چین اگلے تین سالوں میں افغانستان کو ڈیڑھ ارب ین امداد دے گا اور آئندہ پانچ سالوں میں 3 ہزار افغانستان کے عہدیداروں کو تربیت فراہم کرے گا۔ غنی نے سرحدی راستہ ’’وکھان پاس‘‘ کھولنے کا مطالبہ بھی کیا۔ غنی نے چین کو طویل مدت سے لے کر مختصر عرصے کے لئے بھی افغانستان کا سٹرٹیجک پارٹنر قرار دیا۔
چینی صدر نے اشرف غنی کو چینی عوام کا دیرینہ دوست قرار دیتے ہوئے کہا کہ وہ چین افغانستان تعاون کے نئے عہد کی شروعات کے لئے تیار ہیں۔
اشرف غنی کے ہمراہ افغان حکومت کا ایک اعلی سطحی وفد بھی چین گیا ہے افغانستان اورچین کے حکومتی ذرائع کے حوالے سے بتایاکہ اشرف غنی کے دورے کے دوران دو طرفہ بات چیت کے ساتھ ساتھ کئی سمجھوتوں پر بھی دستخط کئے جائیں گے۔
افغان صدر چین کے ممکنہ سرمایہ کاروں سے بھی ملاقات کریں گے۔ یہ امر اہم ہے کہ چین پہلے ہی افغانستان میں خام تیل اور تانبے کے حصول کے لئے کابل حکومت سے خصوصی رعایتیں حاصل کر چکا ہے۔