افغانستان (اصل میڈیا ڈیسک) مغربی ممالک جہاں طالبان حکومت کو مالی امداد دینے کے بارے میں اب تک کوئی فیصلہ نہیں کر سکے، وہیں افغانستان کے پڑوسی ممالک چین اور پاکستان نے افغانستان کی مالی امداد کرنا شروع کر دی ہے جبکہ روس بھی جلد ہی ایسا کرے گا۔
پیر کو جینیوا میں دنیا کی اہم طاقتیں اس بات پر بحث کریں گی کہ افغانستان، جہاں طالبان کی حکومت ہے، وہاں انسانی بنیادوں پر امداد کیسے پہنچائی جائے؟ جنگ زدہ ملک افغانستان کو ایک بڑے بحران کا سامنا ہے، خوراک کی قلت پیدا ہو چکی ہے اور کئی لاکھ افراد شدید غربت کا شکار ہیں۔ لیکن امریکا اور مغربی ممالک طالبان کو تب تک امداد نہیں دینا چاہتے، جب تک کہ وہ انسانی حقوق اور خاص کر خواتین کے حقوق کی فراہمی کی یقین دہانی نہیں کراتے۔
افغانستان کے دس ارب ڈالر کے غیر ملکی اثاثے بھی بیرون ملک منجمد ہیں۔ اقوام متحدہ کی سکریٹری جنرل کی نمائندہ برائے افغانستان ڈوبورا لینز نے گزشتہ ہفتے سکیورٹی کونسل کو بتایا،”مقصد طالبان حکومت کو پیسہ نہ دینا ہے لیکن اس کا اثر یہ ہو گا کہ اس ملک کی مالی حالت مزید ابتر ہو جائے گی اور کئی لاکھ افراد غربت اور بھوک کا شکار ہو جائیں گے اور افغانستان سے مہاجرین کی ایک نئی لہر دیکھنے کو ملے گی، افغانستان کئی عشرے پیچھے جا سکتا ہے۔‘‘
افغان عوام کی مدد نہ کرنے کا ایک نتیجہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ چین اور پاکستان افغانستان کے مزید قریب آ سکتے ہیں۔ دونوں ممالک کی جانب سے امداد سے بھرے کئی جہاز افغانستان پہنچ چکے ہیں۔ دونوں پڑوسی ممالک نے یہ بھی عندیہ دیا ہے کہ وہ طالبان حکومت کے ساتھ بات چیت کے لیے تیار ہیں۔
افغانستان ميں سابق سوويت يونين کی افواج اور مجاہدين کے مابين سن 1979 سے لے کر سن 1989 تک جنگ جاری ہے۔ سرد جنگ کے دور ميں سوويت افواج کو شکست دينے کے ليے امريکا، برطانيہ، پاکستان، ايران، سعودی عرب، چين اور ديگر کئی ملکوں نے مجاہدين کی مدد کی۔ 1989ء ميں سوويت افواج کی واپسی کے بعد بھی مجاہدين نے صدر نجيب اللہ کی حکومت کے خاتمے کے ليے مسلح کارروائياں جاری رکھيں۔
چین نے گزشتہ ہفتے اعلان کیا تھا کہ وہ افغانستان میں اکتیس ملین ڈالر مالیت کی خوراک اور طبی سازوسامان بھیج رہا ہے۔ یہ طالبان کے اقتدار سنبھالنے کے بعد کسی بھی ملک کی جانب سے امداد کا پہلا اعلان تھا۔ پاکستان نے بھی گزشتہ ہفتے کھانے کے تیل جیسی اشیاء اور طبی سازو سامان کابل پہنچایا تھا۔ پاکستانی وزیر خارجہ نے عالمی برادری سے مطالبہ کیا ہے کہ افغانستان میں بغیر شرائط کے مدد فراہم کی جائے اور ان کے منجمد اثاثوں کو بحال کر دیا جائے۔ قطر نے بھی طالبان کی نئی حکومت کو امدادی سامان فراہم کیا ہے جبکہ روس نے بھی ایسا کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔
معدنیات اور عسکریت پسندی پاکستان کو طالبان کی حمایت کرنے اور ان کے ساتھ قریبی روابط رکھنے کے الزامات کا سامنا رہا ہے۔ اسلام آباد ان الزمات کی تردید کرتا ہے۔ دوسری جانب چین جو کہ پاکستان کا اہم اتحادی ملک ہے، وہ بھی اب طالبان کے ساتھ روابط بڑھا رہا ہے۔ کچھ تجزیہ کاروں کے مطابق چین کی نظر افغانستان کی معدنیات پر ہے اور خاص کر لیتھیم کے ذخائر پر، جو کہ کئی الیکٹرانک مصنوعات میں استعمال ہوتی ہے۔ چین کو یہ بھی خدشہ ہے کہ کہیں اس ملک سے عسکریت پسند سرحد پار چین نہ پہنچ جائیں۔ چین طالبان کے ذریعے اپنی سرحد کو محفوظ بنانا چاہتا ہے۔
طالبان رہنماؤں کی جانب سے حالیہ کچھ دنوں میں ایسے بیانات سامنے آئے ہیں، جن میں انہوں نے چین کے ساتھ بہتر تعلقات کی خواہش کا اظہار کیا ہے۔ ایک سینئر طالبان رہنما نے کہا ہے کہ چین کی جانب سے افغانستان میں سرمایہ کاری سے متعلق دوحہ میں مذاکرات ہوئے ہیں۔ چین اور پاکستان کے دو ذرائع نے یہ بتایا ہے کہ چین افغانستان کو پاک چین اقتصادی راہ داری (سی پیک) میں شامل ہونے کے لیے کہہ رہا ہے۔ سینٹر فار چائنہ ادارے کے سربراہ وینگ ہیویاؤ کا کہنا ہے، ”افغانستان میں امن اور استحکام چین کے لیے بہت ضروری ہے۔ اس ملک کے ذریعے چین وسطی ایشیا تک پہنچ سکتا ہے۔ تو یہ سب خطے کے امن اور خوشحالی کے لیے ضروری ہے۔‘‘