افغانستان (اصل میڈیا ڈیسک) جرمن حکومت کے مطابق افغانستان کے لیے آئندہ ہر قسم کی مالی امداد وہاں جمہوری معیارات پر عمل اور ان کے احترام سے مشروط ہو گی۔ امریکا اور جرمنی سمیت نیٹو ممالک کے فوجی ان دنوں افغانستان سے حتمی واپسی کی تیاریوں میں ہیں۔
مارچ دو ہزار اکیس: گزشتہ ماہ ماسکو میں ہونے والی ایک افغانستان امن کانفرنس میں شریک طالبان کا مذاکراتی وفد مارچ دو ہزار اکیس: گزشتہ ماہ ماسکو میں ہونے والی ایک افغانستان امن کانفرنس میں شریک طالبان کا مذاکراتی وفد
امریکی صدر جو بائیڈن نے رواں ماہ کے وسط میں اعلان کیا تھا کہ واشنگٹن حکومت افغانستان سے اپنے سارے فوجی اس سال گیارہ ستمبر کو امریکا پر نائن الیون کے دہشت گردانہ حملوں کے بیس سال پورے ہونے سے پہلے نکال لے گی۔
عسکری انتظامی وجوہات کی بنا پر امریکا کا جرمنی پر دباؤ ہے کہ وہ بھی نیٹو کے رکن دیگر ممالک کی طرح ہندو کش کی اس ریاست سے اپنے فوجی واپس تو بلا لے گا، مگر برلن کو ایسا جولائی میں اور امریکا سے پہلے کر لینا چاہیے۔
افغانستان میں اب تک تعینات مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کے فوجیوں کی تعداد 10 ہزار کے قریب ہے، جن میں بہت بڑی اکثریت امریکی فوجیوں کی ہے۔ نیٹو کی اس فورس میں شامل جرمن فوجیوں کی تعداد 1100 کے قریب ہے اور نفری کے لحاظ سے جرمنی امریکا کے بعد دوسرے نمبر پر ہے۔
اس تناظر میں افغانستان کے دورے پر گئے ہوئے جرمن وزیر خارجہ ہائیکو ماس نے آج جمعرات انتیس اپریل کے روز کابل میں کہا کہ مستقبل میں افغانستان کے لیے ہر قسم کی مالی امداد اس امر سے مشروط ہو گی کہ وہاں جمہوری معیارات کا خیال رکھا جائے۔
ہائیکو ماس نے کہا، ”یہ بات طالبان بھی جانتے ہیں کہ یہ ملک جسے گزشتہ عشروں کے دوران لڑی جانے والی جنگوں کے نتائج کا آج تک سامنا کرنا پڑ رہا ہے، اسے بین الاقوامی مالی امداد پر کتنا زیادہ انحصار کرنا پڑتا ہے۔‘‘
جرمن وزیر خارجہ نے زور دے کر کہا، ”وہ تمام حقوق اور جمہوری معیارات جو اب اس ملک میں مسلمہ حقیقت ہیں، اگر طالبان نے ان کی نفی کی، تو پھر افغانستان کو ملنے والی بین الاقوامی امداد یقینی طور پر بند ہو جائے گی۔‘‘
گیارہ ستمبر 2001ء کو القاعدہ سے تعلق رکھنے والے دہشت گردوں نے مجموعی طور پر چار مسافر طیارے اغوا کیے۔ دو کے ذریعے نیویارک میں ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر حملہ کیا۔ ایک تیسرے جہاز کے ساتھ امریکی پینٹاگون کو نشانہ بنایا گیا جبکہ چوتھا طیارہ گر کر تباہ ہو گیا۔ ان حملوں میں کل تین ہزار افراد ہلاک ہوئے۔
ہائیکو ماس کا ان کے اس بیان میں اشارہ سخت گیر حد تک مذہب پسند طالبان کی اس خواہش کی طرف تھا کہ وہ مستقبل میں کابل میں ملکی حکومت کا حصہ بننا چاہیں گے۔
جرمنی کی طرف سے کابل میں وزیر خارجہ ماس کو یہ بات اس لیے کہنا پڑی کہ ماضی میں جب 1996ء سے لے کر 2001ء تک افغانستان میں اقتدار طالبان کی حکومت کے پاس تھا، تو انہوں نے بہت سے بنیادی انسانی حقوق، خاص طور پر خواتین کے حقوق انتہائی محدود کر دیے تھے۔
طالبان کی حکومت کا خاتمہ 2001ء میں امریکا کی قیادت میں بین الاقوامی فوجی مداخلت کے ساتھ ہوا تھا۔ تب سے طالبان عسکریت پسند کابل حکومت اور بین الاقوامی دستوں کے خلاف مسلسل مزاحمت کرتے آ رہے ہیں اور افغانستان کے وسیع تر علاقے آج بھی ان کے کنٹرول میں ہیں۔