افغانستان (اصل میڈیا ڈیسک) طالبان حکومت کے نائب وزیر صحت کا کہنا ہے کہ افغانستان میں خوراک کا بحران دراصل سابقہ حکومت کی چھوڑی ہوئی “میراث” ہے۔ انہوں نے بین الاقوامی برادری پر امداد کے اپنے وعدے پورے کرنے میں ناکام ہونے کا الزام بھی عائد کیا۔
اقوام متحدہ نے پہلے ہی متنبہ کیا ہے کہ افغانستان میں خشک سالی اور طالبان کے اقتدار سنبھالنے کے بعد پیدا شدہ اقتصادی بحران کے نتیجے میں آنے والے موسم سرما کے دوران ملک میں تقریباً دو کروڑ 20 لاکھ افراد کو خوراک کی “شدید قلت”کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔
طالبان حکومت کے نائب وزیر صحت عبد الباری عمر نے کابل میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا، “ایک بہت اہم مسئلہ ہے جو سابقہ حکومت میراث کے طور پر چھوڑ گئی ہے اور وہ ہے خوراک کی قلت کا مسئلہ۔”
انہوں نے ورلڈ فوڈ پروگرام کے اعداد و شمار کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ پانچ برس سے کم عمر کے تقریباً 32 لاکھ بچے اس برس کے اواخر تک شدید قلت تغذیہ کے شکار ہوجائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ امریکی حمایت یافتہ سابقہ حکومت نے اس تباہی کو ٹالنے کے لیے خاطر خواہ اقدامات نہیں کیے۔
انہوں نے مزید کہا،” بیس برس تک صحت کا شعبہ غیر ملکی امداد پر منحصر رہا۔ ایسا کوئی بنیادی کام نہیں کیا گیا کہ ہیلتھ کیئر کا انفراسٹرکچر اور اس کے وسائل باقی رہ سکتے۔”
طالبان رہنما نے کہا کہ غیر ملکی عطیہ دہندگان اور غیر حکومتی تنظیموں نے ہر چیز کے لیے مالی امداد فراہم کی لیکن ” کوئی کارخانہ تعمیر نہیں کیا گیا، گھریلو وسائل کا کوئی استعمال نہیں کیا گیا۔”
خیال رہے کہ طالبان نے بڑی برق رفتاری کے ساتھ حملے کرکے 15 اگست کو امریکی حمایت یافتہ سابقہ حکومت کا تختہ پلٹ کر کابل پر قبضہ کرلیا تھا اور اپنی حکومت کا اعلان کردیا تھا۔ تاہم اس کے بعد بین الاقوامی برادری نے ملک کے تمام اثاثے منجمد کردیے اور مالی امداد روک دی۔
نائب وزیر صحت عمر نے کہا،” اگر غیر ملکی وسائل میں تخفیف کردی جائے اور بین الاقوامی تنظیمیں اپنی امداد روک دیں تو ہم خدمات کس طرح فراہم کرسکیں گے۔”
انہوں نے کہا،”ورلڈ بینک، یورپی یونین اور یوایس ایڈ (امریکی ترقیاتی ایجنسی) نے افغانستان کے عوام سے کیے گئے اپنے وعدے پورے نہیں کیے۔”
طالبان حکومت کے نائب وزیر صحت عبدالباری عمر کا کہنا تھا،” تنظیموں نے افغانستان کے عوام سے وعدے کیے، انہوں نے ماوں، بچوں اور ضرورت مند افراد سے وعدے کیے۔ ان کا نعرہ تھا کہ صحت خدمات کو سیاست سے الگ رکھا جائے گا لیکن جب حکومت میں تبدیلی ہوئی تو بد قسمتی سے انہوں نے سب کچھ سیاسی ایجنڈے میں تبدیل کر دیا۔”
گزشتہ چار دہائی سے زیادہ عرصے سے تصادم کی آگ میں جلنے والے افغانستان کے لیے خوراک کا بحران ایک اور بڑا چیلنج ہے۔