کابل (جیوڈیسک) ایجنسیاں افغان صدر اشرف غنی نے کہا ہے کہ ان کے جنگ زدہ ملک میں غیرملکی فوجیں ایک سمجھوتے کی بنیاد پر تعینات ہیں اور ان کی طویل مدت کے لیے موجودگی کو قبول نہیں کیا جائے گا۔
انھوں نے سوموار کے روز ایک نشری تقریر میں کہا ہے کہ ’’ کوئی بھی افغان اپنے ملک میں غیرملکی فوجوں کی طویل مدت کے لیے موجودگی نہیں چاہتا ہے‘‘۔
انھوں نے کہا:’’ غیرملکی فوجوں کی موجودگی ضرورت کی بنیاد پر ہے اور اس ضرورت کا ہمیشہ کوئی جواز ہوتا ہے اور یہ جواز رہے گا۔ایک طے شدہ منصوبے کے مطابق ہم غیرملکی فوجیوں کی تعداد صفر تک لانے کی کوشش کررہے ہیں‘‘۔
اشرف غنی نے طالبان پر بھی زور دیا ہے کہ وہ کابل میں حکومت کے ساتھ سنجیدہ مذاکرات کریں۔میں طالبان پر زور دیتا ہوں کہ وہ اپنی افغان منشا کو ظاہر کریں ، افغانوں کے امن کے لیے مطالبے کو تسلیم کریں اور افغان حکومت کے ساتھ سنجیدہ مذاکرات کا آغاز کریں‘‘۔
انھوں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ’’ ہم امن چاہتے ہیں۔ ہم تیزی سے امن چاہتے ہیں لیکن ایک طے شدہ منصوبے کے تحت امن کے خواہاں ہیں۔ہمیں یہ بات فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ اس جنگ کے متاثرین افغان ہیں اور امن عمل بھی افغانوں کے ہاتھ میں ہونا چاہیے‘‘۔
ان کی اس تقریر سے دو روز قبل ہی قطر میں امریکا اور طالبان کے نمایندوں کے درمیان بات چیت ختم ہوئی ہے۔ افغان حکام ان مذاکرات میں حکومت کو شامل نہ کرنے کی شکایت کرچکے ہیں اور انھوں نے خبردار کیا تھا کہ امریکا اور طالبان کے درمیان کسی بھی امن معاہدے کی کابل سے توثیق ضروری ہوگی۔
تاہم طالبان صدر اشرف غنی کی حکومت سے براہ ِراست مذاکرات سے انکار کرتے چلے آرہے ہیں اور ان کا کہنا ہےکہ یہ محض ایک کٹھ پتلی حکومت ہے۔ افغان صدر کی اس نشری تقریر سے چندے قبل ان کے دفتر کی جانب سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا تھا کہ امریکا کے خصوصی ایلچی برائے افغانستان زلمے خلیل زاد نے انھیں یقین دہانی کرائی ہے کہ قطر میں مذاکرات کا مرکزی موضوع طالبان مزاحمت کاروں اور افغان حکومت کے درمیان امن عمل میں سہولت کاری کے طریقے تلاش کرنا ہے۔
خلیل زاد قطر کے دارالحکومت دوحہ میں طالبان کے ساتھ چھے روز ہ مذاکرات کے اختتام پر اتوار کی رات کابل پہنچے تھے۔طرفین نے دوحہ مذاکرات میں نمایاں پیش رفت کے اشارے دیے ہیں اور ان کی طوالت بھی یہ ظاہر کرتی ہے کہ ان میں امن معاہدے کو حتمی شکل دینے کے لیے پیش رفت ہوئی ہے اور ان میں مجوزہ معاہدے کی بعض شقوں پر اتفاق رائے ہوگیا ہے۔تاہم ان کے درمیان بعض امور پر ابھی اختلافات پائے جاتے ہیں۔