افغانستان سے غیر ملکی افواج کا انخلا: جہادی سر اٹھا سکتے ہیں، ماہرین کا انتباہ

Soldiers

Soldiers

افغانستان (اصل میڈیا ڈیسک) نیٹو نے بشمول امریکا اپنے باقی ماندہ فوجیوں کا افغانستان سے انخلا کا سلسلہ شروع کر دیا ہے۔ اس طرح نیٹو فورسز اپنی طویل تر جنگ کے خاتمے کے پہنچ گئی ہے لیکن ملک کا مستقبل ہنوز غیر یقینی نظر آ رہا ہے۔

امریکی اہلکاروں کا کہنا ہے کہ افغانستان سے فوجی انخلا کا سلسلہ گرچہ پہلے سے ہی جاری تھا اور یکم مئی اُس کا ایک تسلسل ہے۔ تاہم واشنگٹن انتظامیہ نے یکم مئی مقرر کر کے واضح کیا کہ یہ دراصل وہ ڈیڈ لائن ہے جس پر 2020ء میں طالبان کے ساتھ افواج کے انخلا کے ضمن میں اتفاق ہوا تھا۔ کئی ہفتوں سے افغانستان سے جنگی سازوسامان اور وہاں تعینات فوجیوں کے زیر استعمال اشیا کو نکالنے کا کام جاری تھا۔ افغانستان میں نیٹو کے 36 ممبر ممالک فوجی تعیناتی میں شریک تھے جن میں ڈھائی ہزار امریکی اور گیارہ سو جرمن فوجی شامل تھے۔

جمعرات سے ہی دارالحکومت کابل اور اس کے قریبی بگرام ایئر بیس پرمعمول سے کہیں زیادہ امریکی ہیلی کاپٹروں کی گونج سنائی دے رہی تھی۔ ہفتہ یکم مئی کو افغانستان بھر میں سکیورٹی ہائی الرٹ کر دی گئی تاکہ افغان سرزمین سے نکلتے وقت امریکی فوجیوں پر کسی بھی ممکنہ حملے کو ناکام بنایا جا سکے۔ اُدھر قائم مقام وزیر داخلہ حیات اللہ حیات نے جمعے کی رات میں پولیس کے اعلیٰ کمانڈروں کے ساتھ بات چیت میں کہا تھا،” امریکی یکم مئی کو باضابطہ طور پر افغانستان سے فوجی انخلا کا آغاز کر دیں گے اور طالبان اس موقع پر تشدد میں اضافہ کر سکتے ہیں۔‘‘ حیات اللہ حیات کے ان بیانات کی آڈیو کلپ صحافیوں کو فراہم کی گئیں تھیں۔

امریکی صدر جو بائیڈن نے اپریل کے وسط میں اعلان کیا تھا کہ 11 ستمبر تک افغانستان سے تمام امریکی فوجی واپس اپنے ملک چلے جائیں گے۔ اس کے فوراً بعد ہی نیٹو نے اعلان کر دیا تھا کہ مذکورہ تاریخ تک مغربی دفاعی اتحاد کا افغانستان آپریشن مکمل طور پر ختم ہو جائے گا۔ اس طرح افغانستان سے جرمن فوجیوں کی تعیناتی بھی ختم ہو جائے گی۔

یہ جرمن فوج کی تاریخ میں مہنگا ترین اور شدید نقصان دہ مشن ثابت ہوا۔ افغانستان میں تعیناتی کے دوران 59 جرمن فوجی اپنی زندگیوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ ان میں سے 35 دہشت گردانہ حملوں اور جھڑپوں میں مارے گئے جبکہ باقی حادثات میں یا فوجی خدمات کی طویل مدت کے دوران وفات پا گئے۔

جرمن فوجی تعیناتی کی لاگت 12 ارب یورو بنی۔ دراصل ابتدائی طور پر اس کا مقصد بطور امن مشن کام کرنا تھا تاہم بعد میں یہ طالبان باغیوں کے خلاف جنگی آپریشن کا کام بھی انجام دینے لگی۔ حالیہ دنوں میں نیٹو فورسز کی بنیادی ذمہ داری افغانستان کی قومی فوج کی تربیت رہی ہے۔

افغانستان میں نیٹو فوج کے انخلا کے بارے میں ملے جُلے جذبات اور رائے پائی جاتی ہے۔ مقامی میڈیا میں شائع ہونے والی رپورٹوں میں ان لوگوں کے جذبات کو اجاگر کیا گیا ہے جو یکم مئی کو غیر ملکی فوجیوں کے انخلا پر بہت خوش ہیں اور آخری فوجی کے جانے کے بعد اپنا یوم آزادی منانا چاہتے ہیں۔ تاہم ملک میں بہت سے افراد شدید خوف کا شکار ہیں کہ غیر ملکی افواج کے جانے کے بعد سلامتی کی صورتحال کیسی ہوگی۔ انہیں ایک سخت گیر موقف والی جابر طالبان حکومت کی واپسی اور نئی خانہ جنگی کا ڈر ہے۔

دوسری جانب افغانستان کے سیاسی اکابرین اور مراعت یافتہ طبقہ یہ کہہ رہا ہے کہ انہیں ایک ‘ذمہ دارانہ فوجی انخلا کی امید تھی۔‘‘ ان کا مطلب یہ ہے کہ امریکا کو فوجی انخلا کے لیے امن مذاکرات میں پیش رفت کا انتظار کرنا چاہیے تھا کیونکہ امریکا کے انخلا کے اعلان کے ساتھ ہی مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کے دیگر ممالک نے بھی انخلا کا فیصلہ کر لیا۔ یاد رہے کہ طالبان اور کابل حکومت کے مابین امن مذاکرات گزشتۃ ستمبر سے جاری ہیں لیکن یہ تعطل کا شکار ہو گئے۔

جرمن سمیت دیگر ماہرین انسداد دہشت گردی نے موجودہ حالات کو ”جہادیوں کے جاگ اُٹھنے کا موقع‘‘ قرار دیتے ہوئے جہادیوں کے ایک بار پھر سر اُٹھانے کے امکانات سے خبر دار کیا ہے۔