افغانستان (اصل میڈیا ڈیسک) افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا کے بعد مغربی دفاعی اتحاد نیٹو اپنے افغان مشن پر نظر ثانی پر مجبور ہو گیا ہے۔ جرمن وزیر خارجہ نے کہا ہے کہ امریکی افواج کے تعاون کے بغیر افغانستان میں جرمن فوجیوں کے تحفظ کی ضمانت نہیں۔
مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کے وزرائے خارجہ کے اجلاس سے قبل جرمن وزیر خارجہ ہائیکو ماس نے اس امید کا اظہار کیا ہے کہ امریکی افواج افغانستان میں اپنے تعاون کا سلسلہ جاری رکھیں گی۔ نیٹو کی یہ اہم ویڈیو کانفرنس منگل کے دن ہی ہو رہی ہے، جس میں تیس رکن ممالک کے وزرائے خارجہ شریک ہوں گے۔
عنقریب سبکدوش ہونے والے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا کے عمل میں تیزی پیدا کر دی ہے۔ ری پبلکن صدر ٹرمپ کا منصوبہ ہے کہ وسط جنوری تک افغانستان میں متعین امریکی فوجیوں کی تعداد ساڑھے چار ہزار سے کم کر کے ڈھائی ہزار کر دی جائے۔
افغانستان میں تعینات غیر ملکی افواج کی مجموعی تعداد تقریباﹰ گیارہ ہزار بنتی ہے۔ ان فوجیوں کا تعلق یورپی اور دیگر نیٹو رکن ممالک سے ہے۔ تاہم یہ عسکری اتحاد ایئر سپورٹ اور انتظامی معاملات پر امریکی فوجیوں پر بہت زیادہ انحصار کرتا ہے۔
جرمن وزیر خارجہ نے اسی تناظر میں کہا کہ یہ انتہائی اہم ہے کہ افغانستان میں متعین جرمن فوجیوں کی سلامتی کی خاطر امریکی افواج کی ایک اہم تعداد افغانستان میں ہی تعینات رہے۔ جرمن براڈ کاسٹر زیڈ ڈی ایف سے گفتگو میں ہائیکو ماس نے کہا، ”بصورت دیگر ہم جرمن فوجیوں کی سلامتی کی ضمانت نہیں دے سکتے۔‘‘
نیٹو کی اس دو روزہ ورچوئل کانفرنس میں متوقع طور پر افغان مشن پر توجہ مرکوز رہے گی۔ اس کے علاوہ مغربی دفاعی اتحاد میں اصلاحات کے منصوبوں پر بھی گفتگو کی جائے گی۔ اس کانفرنس میں نیٹو کی چائنہ پالیسی پر بھی تبادلہ خیال کیا جائے گا۔
جرمن وزیر خارجہ نے کہا ہے کہ امریکی افواج کے تعاون کے بغیر افغانستان میں جرمن فوجیوں کے تحفظ کی ضمانت نہیں ہے۔
موجودہ عالمی حالات میں نیٹو عسکری اتحاد کے تاحال اہم اور متعلقہ ہونے سے متعلق ایک سو اڑتیس منصوبے زیر بحث ہیں۔ ماہرین کی ایک ٹیم نے ان منصوبہ جات کو تیار کیا ہے۔ ان میں نیٹو کے سیاسی کردار کو مضبوط بنانے کی تجاویز بھی شامل ہیں۔
جرمن نیوز ایجنسی ڈی پی اے نے ذرائع کے حوالے سے بتایا ہے کہ یہ کوشش بھی کی جا رہی ہے کہ مشترکہ فوجی آپریشنز کو کچھ رکن ممالک کی طرف سے ویٹو کرنے کے اختیارات کو بھی محدود بنایا جائے۔
جرمن وزیر خارجہ ماس نے ان منصوبہ جات کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا ہے کہ ‘یہ درست وقت پر تجویز‘ کیے گئے ہیں۔ زیڈ ڈی ایف سے گفتگو میں انہوں نے کہا، ”ہمیں اپنے مفادات کو زیادہ یقینی بنانا ہے۔ ہمیں دیکھنا ہے کہ اس سلسلے میں یورپ اپنے لیے اور ہمسایہ ممالک کے لیے فوری طور پر کیا کر سکتا ہے؟‘‘
جرمن وزیر خارجہ ماس کے مطابق ‘جرمن افواج افغانستان میں ہمیشہ کے لیے نہ ہی متعین رہ سکتی ہیں اور نا ہی رہنا چاہییں‘۔ تاہم انہوں نے کہا کہ اس شورش زدہ ملک سے غیر ملکی افواج کا انخلا ‘مربوط‘ طریقے سے ہونا چاہیے، جس کے لیے افغانستان میں طالبان اور حکومت کے مابین امن مذاکرات انتہائی اہم ہیں۔
طالبان اور امریکا کے مابین دوحہ امن ڈیل کے تحت افغانستان سے امریکی اور دیگر ممالک کی افواج یکم مئی تک واپس بلا لی جائیں گی تاہم اس سے قبل یہ دیکھنا ہو گا کہ اس پیشرفت کے لیے سکیورٹی حالات موافق ہوں۔
ہائیکو ماس نے اس امید کا اظہار بھی کیا ہے کہ آئندہ برس بیس جنوری کو ڈیموکریٹ سیاستدان جو بائیڈن کے امریکی صدر بننے کے بعد امریکی انتظامیہ سے بہتر رابطہ کاری ممکن ہو سکے گی۔