جرمنی (اصل میڈیا ڈیسک) وفاقی جرمن فوج افغانستان میں تعینات اپنے دستوں کا انخلا امریکی دباؤ کے باعث اب بہت تیز رفتاری سے اور گزشتہ ٹائم ٹیبل سے کہیں پہلے مکمل کر لے گی۔ افغانستان سے جرمن فوجی انخلا ممکنہ طور پر چار جولائی سے شروع ہو جائے گا۔
برلن میں جرمن وزارت دفاع کی طرف سے آج بدھ اکیس اپریل کو وفاقی پارلیمان بنڈس ٹاگ کو بتایا گیا کہ امریکا کی طرف سے جرمنی پر اس بارے میں مسلسل دباؤ ڈالا جا رہا ہے کہ برلن افغانستان سے اپنے فوجی دستوں کا انخلا جلد مکمل کر لے۔ امریکا کی طرف سے اس دباؤ کی وجہ صدر بائیڈن کا یہ اعلان ہے کہ افغانستان سے تمام امریکی فوجی اس سال گیارہ ستمبر کو نائن الیون حملوں کے بیس سال مکمل ہونے سے پہلے پہلے نکل جائیں گے۔
امریکی دستوں کے انخلا کا عملی مطلب ہندوکش کی اس ریاست سے مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کے تمام فوجیوں کا انخلا بھی ہو گا۔ اس لیے کہ افغانستان میں نیٹو کے مشن ‘ریزولیوٹ سپورٹ‘ میں سب سے زیادہ نفری امریکی فوجیوں ہی کی ہے۔
جرمن وزارت دفاع نے بنڈس ٹاگ کی ڈیفنس کمیٹی کو بتایا کہ امریکی صدر بائیڈن کے اعلان کے بعد جرمنی کو بھی افغانستان سے اپنے فوجیوں کا انخلا 11 ستمبر تک پورا کرنا تھا۔ اب لیکن یہ انخلا بہت تیزی سے اور کافی پہلے، ممکنہ طور پر جولائی کے شروع میں مکمل کر لیا جائے گا۔
وزارت دفاع نے بتایا کہ اس فوجی واپسی کی گزشتہ ٹائم ٹیبل سے بھی دو ماہ پہلے ہی تکمیل کی وجہ یہ ہے کہ انخلا کے دوران فوجیوں کی واپسی کے علاوہ ضروری عسکری ساز و سامان ساتھ لانے اور مجبوری میں کچھ سامان وہیں چھوڑ دینے کے کئی ممالک کی طرف سے مکمل کیے جانے والے عمل کی وجہ سے ٹرانسپورٹ سے متعلق اور انتظامی نوعیت کے مسائل پیدا نا ہوں۔
یہ تصویر سن 1962 میں لی گئی تھی۔ اس میں کابل یونیورسٹی کی میڈیکل کی تعلیم حاصل کرنے والی طالبات کو دیکھا جا سکتا ہے۔ اس وقت خواتین افغان معاشرے میں اہم کردار ادا کرتی تھیں۔ خواتین کو تعلیمی سہولیات میسر تھیں اور وہ گھروں سے باہر نکل کر کام کر سکتی تھیں۔
جرمنی کی خاتون وزیر دفاع آنےگریٹ کرامپ کارین باؤر نے پہلے یہ فیصلہ کیا تھا کہ افغانستان سے جرمن فوجی انخلا اگست کے وسط تک مکمل کر لیا جائے گا۔ اب لیکن یہ فوجی واپسی اس سے بھی تقریباﹰ ڈیڑھ ماہ قبل جولائی کے شروع میں مکمل کر لی جائے گی۔
وزرات دفاع کے ایک ترجمان نے بتایا کہ جرمنی نے اپنے طور پر اب جو نظام الاوقات تیار کیا ہے، اس پر عمل درآمد کے لیے نیٹو کے دائرہ کار کے اندر رہتے ہوئے مشن ‘ریزولیوٹ سپورٹ‘ کی عسکری قیادت سے بھی مشاورت کی جائے گی۔
جرمن وزارت دفاع کے حکام نے بدھ کے روز نیوز ایجنسی ڈی پی اے کو یہ بھی بتایا کہ افغانستان سے امریکی فوجی دستوں کے انخلا کے لیے صدر بائیڈن نے گیارہ ستمبر تک کی میعاد کا ذکر تو کیا تھا، تاہم عین اس تاریخ تک اس انخلا کی تکمیل کو عسکری نوعیت کے ایک سیاسی فیصلے کے طور پر ایک غلط اشارہ بھی سمجھا جا سکتا تھا۔ اس لیے کہ اس سال گیارہ ستمبر کو امریکا پر نائن الیون کے دہشت گردانہ حملوں کے ٹھیک بیس سال پورے ہو جائیں گے۔
دنیا بھر میں دہشت گردی سے متاثر ممالک میں افغانستان اس برس سر فہرست رہا۔ سن 2018 کے دوران افغانستان میں 1443 دہشت گردانہ واقعات ہوئے جن میں 7379 افراد ہلاک اور ساڑھے چھ ہزار افراد زخمی ہوئے۔ 83 فیصد ہلاکتیں طالبان کے کیے گئے حملوں کے سبب ہوئیں۔ طالبان نے پولیس، عام شہریوں اور حکومتی دفاتر کو نشانہ بنایا۔ داعش خراسان کی دہشت گردانہ سرگرمیوں میں بھی اضافہ ہوا۔ افغانستان کا جی ٹی آئی اسکور 9.60 رہا۔
یہی وجہ ہے کہ اب کابل میں مشن ‘ریزولیوٹ سپورٹ‘ کے ہیڈ کوارٹرز میں یہ تیاریاں کی جا رہی ہیں کہ افغانستان سے امریکا سمیت نیٹو کا فوجی انخلا اگر ہو سکے تو گیارہ ستمبر سے کافی پہلے اگست میں ہی مکمل کر لیا جائے۔
تقریبا سبھی عسکری ماہرین اور تجزیہ کار اس بات پر متفق ہیں کہ افغانستان میں تقریباﹰ دو عشروں تک موجودگی کے بعد فوجی انخلا امریکا، جرمنی اور نیٹو کے رکن ہر شریک ملک کے لیے ایک بہت بڑا لاجسٹک چیلنج ہو گا۔
اس دوران نیٹو کے دس ہزار کے قریب فوجیوں کو تو فضائی راستے سے واپس لایا ہی جائے گا لیکن ساتھ ہی بہت بڑا کام فوجی اور جنگی ساز و سامان کی منتقلی بھی ہو گا۔ یہ منتقلی ہوائی جہازوں کے علاوہ ممکنہ طور پر پہلے زمینی اور پھر بحری راستوں سے بھی کرنا پڑ سکتی ہے۔
اس کے علاوہ نیٹو کے رکن ممالک کو اپنا بہت سا عسکری ساز و سامان مجبوراﹰ افغانستان میں چھوڑنا بھی پڑ سکتا ہے، جس سے قبل ایسے ساز و سامان کا وہاں مناسب انداز میں ٹھکانے لگایا جانا بھی بہت اہم ہو گا۔