افغانستان (اصل میڈیا ڈیسک) تبصرہ نگار مارسیل فیورسٹناؤ لکھتے ہیں کہ تباہ کن افغان پالیسی پر جرمن حکومت کا ردعمل شرمناک ہے جبکہ طالبان کی ’فتح‘ کے بعد بھی یہ اپنی غلطی تسلیم کرنے میں سست روی کا شکار ہے۔
‘افغانستان سے نکل جاؤ‘ آج سے بیس برس قبل کا یہ نعرہ تھا جرمنی کی لیفٹ پارٹی کا۔ مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کے آسیاف نامی افغان مشن میں جرمنی کی شمولیت پر ہی لیفٹ پارٹی نے شدید تحفظات کا اظہار کیا تھا۔ ڈی ڈبلیو کے تبصرہ نگار مارسیل فیورسٹناؤ لکھتے ہیں کہ اگر یہ پارٹی تب اقتدار میں ہوتی تو ایسا کر بھی پاتی؟
ان کے مطابق اس سوال کا جواب ہاں اور نہ دونوں میں ہی دیا جا سکتا ہے۔ ان کے بقول ‘ہاں‘ اس لیے کیونکہ طالبان اور اس تحریک کی دہشت گردی کا مقابلہ ضروری تھا، تاکہ جمہوریت کا دفاع کیا جا سکے۔
اور ’نہیں‘ اس صورت میں کہ بہت جلد ہی علم ہو گیا تھا کہ افغانستان کی جنگ جیتنا ممکن نہیں ہے۔ اس کی وجہ افغان حکومت کی بدعنوانی اور جمہوری نظام کا کمزور ہونا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ افغانستان میں ان بنیادی مسائل کے خاتمے کی خاطر مغرب نے کبھی بھی سنجیدہ کوشش نہیں کی۔ بالخصوص جنگی مشن میں افغانستان کے ثقافتی اور تاریخی امور کو یکسر نظر انداز کر دیا گیا۔
جب جرمنی میں نیٹو کے افغان مشن پر بحث ہوتی تو کئی سوالات اٹھتے۔ جرمن مشن کب ختم ہو گا؟ یہ ایک ایسا سوال تھا، جس کا جواب صرف واشنگٹن حکومت کے پاس ہی تھا۔ اس مشن کی سربراہی امریکا کے پاس ہی رہی۔
اس کے باوجود جرمن حکومت بالکل ہی بے اختیار نہ تھی۔ اگر فوجی مشن میں نہیں تو کم ازکم سول مشن میں وہ تبدیلی پیدا کر سکتی تھی۔
اب جب کابل پر بھی طالبان کا قبضہ ہو چکا ہے تو ایسے لوگوں کو وہاں سے نکال لینا چاہیے تھا، جو بیس سالہ جنگ میں افغان سفارتکاروں اور افواج کے معاونت کار تھے۔
مارسل فیورسٹناؤ کہتے ہیں کہ جرمن حکومت کے لیے یہ شرم کی بات ہے کہ بہت سے ایسے افغان ابھی تک ملک سے نہیں نکالے جا سکے اور وقت تیزی سے گزر رہا ہے۔
جرمن وزیر خارجہ ہائیکو ماس نے جون میں اس خدشے کو خارج از امکان قرار دے دیا تھا کہ افغان طالبان جلدی ہی کابل پر قابض ہو جائیں گے۔ جب یہ خدشات حقیقت کا رنگ اختیار کر گئے تو انہوں نے ناکامی کا تمام تر ملبہ وفاقی جرمن خفیہ ایجنسی کے کاندھوں پر لاد دیا۔
افغانستان کے بارے میں جرمن خفیہ ایجنسی کے تجزیے غلط ہونے پر تنقید کسی حد تک درست ہے لیکن معاملہ صرف یہی نہیں ہے۔ سوال ہے کہ کیا جرمن حکومت نے پلان بی بھی بنایا تھا؟ یعنی سقوط کابل کے بعد وہاں موجود جرمن اور جرمن حکومت کے معاونت کاروں کو وہاں سے نکالنے کا کوئی منصوبہ تیار تھا؟
اس صورتحال میں بنیادی ذمہ داری چانسلر آفس پر عائد ہوتی ہے، جہاں سے تمام تر پالیسیوں کی منظوری ملتی ہے۔ یہ وہی دفتر ہے، جہاں ہفتہ وار کابینہ میٹنگز میں منصوبے بنائے جاتے ہیں جبکہ یہیں پر خفیہ اداروں کی معلومات پر بحث ہوتی ہے۔
مختصر یہ کہ اب انگیلا میرکل کو وضاحت کرنا ہو گی۔ ان کے لیے اور دیگر جرمنوں کے لیے ابھی یہی امید بچی ہے کہ افغانستان سے جرمنوں اور جرمنی کے معاونت کاروں کے اںخلا کا عمل، جو تاخیر سے شروع ہوا ہے، کامیاب رہے۔
اب بھی موقع ہے کہ جانیں بچائی جا سکتی ہیں۔ اس مقصد کے حصول کی خاطر سیاسی یا مالی، کوئی بھی قیمت ادا کرنا پڑے، اس کی پروا نہیں کی جانا چاہیے۔ ایک بات لیکن اہم ہے کہ اس صورتحال میں افغانوں اور جرمنوں کا کھویا ہوا اعتماد اب بحال کرنا ایک مشکل کام ہو گا۔
افغانستان میں جرمنی ناکام رہا، تبصرہ
Posted on August 22, 2021 By Majid Khan بین الاقوامی خبریں
Shortlink:
Afghan Refugees
افغانستان (اصل میڈیا ڈیسک) تبصرہ نگار مارسیل فیورسٹناؤ لکھتے ہیں کہ تباہ کن افغان پالیسی پر جرمن حکومت کا ردعمل شرمناک ہے جبکہ طالبان کی ’فتح‘ کے بعد بھی یہ اپنی غلطی تسلیم کرنے میں سست روی کا شکار ہے۔
‘افغانستان سے نکل جاؤ‘ آج سے بیس برس قبل کا یہ نعرہ تھا جرمنی کی لیفٹ پارٹی کا۔ مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کے آسیاف نامی افغان مشن میں جرمنی کی شمولیت پر ہی لیفٹ پارٹی نے شدید تحفظات کا اظہار کیا تھا۔ ڈی ڈبلیو کے تبصرہ نگار مارسیل فیورسٹناؤ لکھتے ہیں کہ اگر یہ پارٹی تب اقتدار میں ہوتی تو ایسا کر بھی پاتی؟
ان کے مطابق اس سوال کا جواب ہاں اور نہ دونوں میں ہی دیا جا سکتا ہے۔ ان کے بقول ‘ہاں‘ اس لیے کیونکہ طالبان اور اس تحریک کی دہشت گردی کا مقابلہ ضروری تھا، تاکہ جمہوریت کا دفاع کیا جا سکے۔
اور ’نہیں‘ اس صورت میں کہ بہت جلد ہی علم ہو گیا تھا کہ افغانستان کی جنگ جیتنا ممکن نہیں ہے۔ اس کی وجہ افغان حکومت کی بدعنوانی اور جمہوری نظام کا کمزور ہونا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ افغانستان میں ان بنیادی مسائل کے خاتمے کی خاطر مغرب نے کبھی بھی سنجیدہ کوشش نہیں کی۔ بالخصوص جنگی مشن میں افغانستان کے ثقافتی اور تاریخی امور کو یکسر نظر انداز کر دیا گیا۔
جب جرمنی میں نیٹو کے افغان مشن پر بحث ہوتی تو کئی سوالات اٹھتے۔ جرمن مشن کب ختم ہو گا؟ یہ ایک ایسا سوال تھا، جس کا جواب صرف واشنگٹن حکومت کے پاس ہی تھا۔ اس مشن کی سربراہی امریکا کے پاس ہی رہی۔
اس کے باوجود جرمن حکومت بالکل ہی بے اختیار نہ تھی۔ اگر فوجی مشن میں نہیں تو کم ازکم سول مشن میں وہ تبدیلی پیدا کر سکتی تھی۔
اب جب کابل پر بھی طالبان کا قبضہ ہو چکا ہے تو ایسے لوگوں کو وہاں سے نکال لینا چاہیے تھا، جو بیس سالہ جنگ میں افغان سفارتکاروں اور افواج کے معاونت کار تھے۔
مارسل فیورسٹناؤ کہتے ہیں کہ جرمن حکومت کے لیے یہ شرم کی بات ہے کہ بہت سے ایسے افغان ابھی تک ملک سے نہیں نکالے جا سکے اور وقت تیزی سے گزر رہا ہے۔
جرمن وزیر خارجہ ہائیکو ماس نے جون میں اس خدشے کو خارج از امکان قرار دے دیا تھا کہ افغان طالبان جلدی ہی کابل پر قابض ہو جائیں گے۔ جب یہ خدشات حقیقت کا رنگ اختیار کر گئے تو انہوں نے ناکامی کا تمام تر ملبہ وفاقی جرمن خفیہ ایجنسی کے کاندھوں پر لاد دیا۔
افغانستان کے بارے میں جرمن خفیہ ایجنسی کے تجزیے غلط ہونے پر تنقید کسی حد تک درست ہے لیکن معاملہ صرف یہی نہیں ہے۔ سوال ہے کہ کیا جرمن حکومت نے پلان بی بھی بنایا تھا؟ یعنی سقوط کابل کے بعد وہاں موجود جرمن اور جرمن حکومت کے معاونت کاروں کو وہاں سے نکالنے کا کوئی منصوبہ تیار تھا؟
اس صورتحال میں بنیادی ذمہ داری چانسلر آفس پر عائد ہوتی ہے، جہاں سے تمام تر پالیسیوں کی منظوری ملتی ہے۔ یہ وہی دفتر ہے، جہاں ہفتہ وار کابینہ میٹنگز میں منصوبے بنائے جاتے ہیں جبکہ یہیں پر خفیہ اداروں کی معلومات پر بحث ہوتی ہے۔
مختصر یہ کہ اب انگیلا میرکل کو وضاحت کرنا ہو گی۔ ان کے لیے اور دیگر جرمنوں کے لیے ابھی یہی امید بچی ہے کہ افغانستان سے جرمنوں اور جرمنی کے معاونت کاروں کے اںخلا کا عمل، جو تاخیر سے شروع ہوا ہے، کامیاب رہے۔
اب بھی موقع ہے کہ جانیں بچائی جا سکتی ہیں۔ اس مقصد کے حصول کی خاطر سیاسی یا مالی، کوئی بھی قیمت ادا کرنا پڑے، اس کی پروا نہیں کی جانا چاہیے۔ ایک بات لیکن اہم ہے کہ اس صورتحال میں افغانوں اور جرمنوں کا کھویا ہوا اعتماد اب بحال کرنا ایک مشکل کام ہو گا۔
by Majid Khan
Nasir Mehmood - Chief Editor at GeoURDU.com