ہندوستان پر محمد بن قاسم ثقفی بنو امیہ کے سپہ سالار سے لے کر مغلوں کے آخری بادشاہ بہادر شاہ ظفر تک مسلمانوں نے ایک ہزار سال سے زاہد عرصہ تک ہندوئوںپر حکمرانی کی تھی۔ ہندوستان پر مسلمانوں سے اس ہزار سالہ حکمرانی کا بدلہ لینے کے متعلق پلائنگ کرتے رہتے تھے۔مگر اُن سے کچھ بن نہیں پاتا تھا۔ہندو مسلمان دونوں نے انگریز کو ہندوستان سے نکالنے کی کوشش کی۔ مسلم دشمنی میںانگریزجاتے جاتے اقتدار ہندوئوں کو دینے کا پروگرام بنا رہے تھے۔ ہندئو عددی اکثریت کے بل بوتے پر اپنی پرانی خواہش کو پورا کرنے کے موقع کی تلاش میں تھے۔ اس چیز کو قائد اعظم محمد علی جناح نے بھانپ لیا۔ اور ہندوستان میں دو بڑی قوموں ہندو اور مسلمانوں کو اقتدار سوپنے کی تحریک چلائی۔بانی پاکستان حضرت قائد اعظم محمد علی جناح نے کہا کہ انگریز کے جانے کے بعد یہ دونوں قومیں ایک ساتھ نہیں رہ سکتیں۔ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے ٣٢ مارچ١٩٤٠ء لاہور میں فرمایا تھا:۔ مسلمان ہندوئوں سے علیحدہ قوم ہیں۔ہمارا کلچر،ہماری ثقافت ،ہماری تاریخ،ہمارا کھانا پینا،ہمارا معاشر ہ سب کچھ ان سے یکسرمختلف ہے۔
لہٰذا ہندوستان کو دو قوموں میں تقسیم کر دیا جائے۔ جہاں ہندوئوں زیادہ ہیں وہاں ہندوستانی ریاست اورجہاں مسلمان زیادہ ہیں وہاں پاکستانی ریاست بننی چاہیے۔ اسی ”دو قومی نظریہ تھیوری” کو قائد اعظم نے برصغیر کے مسلمانوں میں عام کر کے اپنی انتھک کوشش سے پاکستان حاصل کیا۔عربوں پر تو ہندو صرف یہ ہی غصہ نکالتے رہے کہ فتح مکہ کے موقع پر جن تین سو ساٹھ بتوں کو توڑا گیا تھا وہ ہمارے ہی بت تھے۔ مگر ہندوستان کے افغان حکمرانوں کے خلاف ہندوئوںنے خصوصی طور پر مہم چلائی۔پورے ہندوستان میں کہا گیا کہ وہ لٹیرے اور ڈاکو تھے۔ ہمارے ملک پر حملے کرتے رہے۔ ہمارے دولت لوٹ کر افغانستان لے جاتے رہے۔ پھر حال میں ان کو ”طارق فتح” جیسے منافق مسلمان مل گئے جو اس مہم کو میڈیا پر زور شور سے چلا رہے ہیں۔
بھارت کے زی ٹی وی پر طارق فتح اس سلسلہ میں ایک اسپیشل شو کرتا ہے ۔ ہندوئوں نے زارِروس اور اشتراکی روس کے ساتھ مل کر افغانوں کو اسلامی سوچ سے ہٹا کر قوم پرست،کیمونسٹ ، روشن خیال اور لبرل بنانے میںمدتوں صرف کیں۔ روس تو وسط ایشیا کی اسلامی ریاستوں پر قبضہ کرتے کرتے افغانستان کے سرحد دریائے آمو تک پہنچ گیا تھا ۔ اب اس نے افغانستان ،بلوچستان اور پاکستان کے راستے گرم پانیوں تک پہنچنا تھا ۔ یہ روس کے لیڈر” گنگ ایڈورڈ” کا اپنی قوم کے نام ڈاکٹرائن تھا۔ کہ دنیا پر وہ قوم حکومت کرے گی جو خلیج کے پانیوں پر قابض ہو گی۔ اسی لیے اشتراکی روس نے افغانستان پر قبضہ کیا تھا ۔مگر جہاد کی برکت اور ساری دنیا کی امدادا اورخصوصاً اسلامی دنیا کی مدد اور جہاد شروع ہونے کے دو سال بعد روس سے سرد جنگ کی دشمنی کی وجہ سے امریکا کا جنگ میںشریک ہوا تھا۔ اس کے اسٹنیگر میزائیلوں نے کام کیا اور اشتراکی روس کو عبرت نا شکست ہوئی تھی۔
جب قائد اعظم محمد علی جناح کی قیادت میں تحریک پاکستان چل رہی تھی۔ بھارت اور انگریز کی ساری چالوں کو ایک جہاں دیدہ بیرسٹر نے اپنی پر امن اور جمہوری طریقے سے دلیل کی بنیاد پر انتھک محنت کر کے ناکام کیا۔ لندن سے واپسی پر آل انڈیا مسلم لیگ کو جدید طریقے پر منظم کیا۔ پورے برصغیر کے عوام کو آل انڈیا مسلم لیگ کے جھڈے تلے جمع کیا۔ برصغیر کے مسلمانوں کو نعر دیا” پاکستان کا مطلب کیا ”لا الہ الا اللہ”۔”مسلم ہے تو مسلم لیگ میں آیا”۔ بن کے رہے پاکستان لے کر رہیں پاکستان”۔ پھر مستانہ نعرے پر ہندوستان کے جن صوبوں میں پاکستان نہیں بننا تھا ان صوبوں کے مسلمانوں نے بھی اسلام کے نام پر پاکستان کے لیے قربانیاں دیں۔ہندوئوں نے محسوس کیا کہ اب تو قائداعظم کی ولولہ انگیز تحریک پاکستان میں اسلام کا رنگ بھر دیا ہے۔
پاکستان بننے کے علاوہ کو راستہ نہیں بچا ۔ پاکستان بننے دو ،ہم اہستہ آستہ مسلمانوں کے دلوں سے اسلامی کی محبت نکال کر سیکولرزم کی جال میں پھنسا لیں گے۔یہ کام پاکستان بننے کے بعد ہندو لیڈر شپ نے کیا ۔ مشرقی پاکستان میں تعلیم اداروں میں ہندو ٹیچروںکے ذریعے مسلمان بچوں کے دلوں میں سے اسلام کی محبت کم کر کے قومیت اورسیکولزم کے زہر کو ڈالا۔ پاکستانی سیاست دان اقتدار کی لالچ میں اسلام سے دُور ہوتے گئے۔ پاکستان کی اساس کے مطابق اور قاعد اعظم کے اسلامی وژن کے مطاباق پاکستان میں اسلامی نظام حکومت رائج نہیں کیا۔ بلکہ اس میں رکواٹیںڈالی۔پورے ملک میں نام نہاد حقوق کے نام پر قومیت کی بنیاد پر اور خاص کر مشرقی پاکستان میںبنگلہ قومیت اور زبان کے نام پر تحریکیں چلائیں گئیں ۔مشرقی پاکستان کے عوام کو کہا کہ آپ کی دولت مغربی پاکستان کے عوام پر خرچ ہو رہی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ مسلم لیگ کے کھوٹے سکوں نے قائد اعظم کی وفات کے بعد کہنا شروع کر دیا کہ اس جدید دور میں اسلام کا چودہ سو سالہ پرانا نظام حکومت نہیں چل سکتا۔ اس طرح بھارت نے اس موقعہ سے فاہدہ اُٹھایا۔ غدار پاکستان شیخ مجیب الرحمان کو آلہ کار بنا کر اگر تلہ سازش تیار کی۔ دہشت گرد تنظیم مکتی باہنی بنائی ۔ جن نے بنگالیوں کے علاوہ ہر شخص کو مغربی پاکستانی کہہ کر ان کو مارنا شروع کیا۔
ظلم ستم کی انتہا کر دی۔پھر یخییٰ خان نے جب مشرقی پاکستان میں بنگالی قومیت کا جن بوتل سے باہر آگیا تھا۔ ایسے پرتشدد حالات میں ١٩٧٠ء کے انتخابات کروائے ۔ ایسے حالات میں کسی طور پر بھی نظریہ پاکستان والے کامیاب نہیں ہو سکتے تھے؟۔ یہ انتخابات جانبدارانہ اور قومیت اورلسانیت کی بنیاد پر لڑے گئے تھے جو قائد اعظم کے نظریہ اسلام کے سرا سر خلاف تھے ۔ ان حالات میں شیخ مجیب الرحمان نے بنگالی قومیت کے نام مشرقی پاکستان میں اکثریت حاصل کی اور مغربی پاکستان میں سوشلزم کے نام پر پیپلز پارٹی کے ذوالفقار علی بھٹو نے اکژیت حاصل کی۔کیا اُس زمانے میںاشتراکی روس میں کیمونزم کے نظریہ سے ہٹ کر انتخابات ہوسکتے تھے۔؟ نہیںممکن ہی نہیں تھا کے ہوتے ؟ کیا سرمایادارانہ نظام کے ملک امریکا میں کیمونزم کے نام پر انتخابات ہوتے تھے؟ ناممکن تھا، نہیںہو سکتے تھے؟دنیا میں صرف ہی پاکستان تھا جسے اسلام کے نام پر بانی پاکستان قائد اعظم نے حاصل کیا تھا۔ اس میں اسلام سے ہٹ کر قومیت اور لسانیت کے نام پر ایک سازش سے الیکشن ہوئے تھے جو سرا سر غلط تھے۔
جب بھارت کی وزیر اعظم اندرا گاندھی نے اپنی فوجیں مشرقی پاکستان میں ڈال کر پاکستان کے دو ٹکڑے کیے تو کہا تھا کہ میں نے قائد اعظم کا دوقومی نظیر اور نظریہ اسلام کو خلیج بنگال میں ڈوبا دیا ہے اور مسلمانوں سے ایک ہزارا سالہ ہندوئوں پر حکمرانی کا بدلہ بھی لے لیا ہے ۔یہ تھا وہ ڈاکٹرائین جو تحریک پاکستان کے دوران ہندئو لیڈر شپ نے ترتیب دیا گیا تھا۔ ایک اور بات ہندوئوں کی مرکزی لیڈرموہن داس کرم چند گاندھی نے کہی تھی کہ اب تو پاکستان ناگزین ہیں بن رہا ہے۔ مگرمجھے فکر یہ ہے کہ پاکستان بننے کے بعد افغانستان سے مل کر اسلامی دنیا کے سمندر میں شامل ہو جائے گا تو اس کا مقابلہ ہم نہیں کر سکیںگے؟ لہیذا اس کو روکنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ یہ ہی وہ ڈاکٹرائین ہے جس پر بھارت نے اشتراکی روس سے مل کر افغانستان کے رسم رواج۔ کلچر، اسلامی تہذیب کو ختم کر کے اس کو پاکستان کے خلاف کھڑا کرنا تھا۔اس کے لیے بھارت نے افغانستان میں بھاری انوسٹمنٹ کی۔ کابل سے ایران کی چہار باغ بندر گاہ تک ہائی وے بنا کر دی۔ افغانستان کی پارلیمنٹ کی بلڈنگ بنا کر دی۔
درجنوں ہیلی کاپٹر دیے اور فوجی ساز و سامان دیا۔ افغان فوج کی جدید طرز پر قوم پرستانہ اور سیکولزم پر ٹرینیگ کی۔ آبپاشی اور بجلی بنانے کے لیے ڈیم بنا کر دیے۔ تعلیم اسکار شپ دیے۔ سالانہ بنیادوں پر امداد کے علاوہ ہے۔ اس کے بدلے قوم پرست افغانستان نے پاکستان کی سرحد کے ساتھ ساتھ دہشت گردی کے لیے درجنوں کونسل خانے بنانے دیے، یہاں بھارت افغانستان کی ا نٹلیجنس ایجنسی کے ساتھ مل کے پاکستان میں دہشت گردی کرتا رہا اور اب بھی کر رہا ہے۔ بلوچستان میں بھارت کاحاضر سروس نیوی کا کمانڈرگل بھوشن یادیو رنگے ہاتھوں آئی ایس آئی نے گرفتار کیا۔افغانستان نے بھارت کی ایما پر تحریک طالبان پاکستان کے دہشت گردوں کو ٹکانے مہیا کیے جہاں سے وہ پاکستان میں دہشت گردی کرتے ہیں۔ اس طرح قوم پرست افغانستان نے پاکستان بنتے وقت پاکستان کو تسلیم بھی نہیں کیا تھا۔ اس وقت کے صوبہ سرحد اور اب صوبہ خیبر پختونخواہ کے غفار خان نے بھارت کی ایما پر پشتونستان اور ڈیورنڈ لائن کا مسئلہ کھڑاکیا رکھا۔پاکستان بنتے وقت صوبہ سرحد میں ریفرینڈم ہوا تھا اور صوبہ کے عوام نے ننانوے فی صد پشتونستان نہیں بلکہ پاکستان میں شامل ہونے کے حق میں ووٹ کاسٹ کیا تھا۔پھر بھی سرحدی گاندھی، قوم پرست غفار خان اور اس کے بیٹے ولی خان نے پشتونستان بنانے کی کوششیں جاری رکھی۔ بھارت سے فنڈ لے کر کالا باغ ڈیم نہیں بننے دیا ۔ کہا کہ ڈیم بنائو گے تو بم مار کر ڈیم کو اُڑا دوں گا۔ پھر قوم پرست سردار دائو د صدر افغانستان کے ساتھ ملک کر پاکستان پر حملہ کرنے کی کوشش کی پرجس منہ کی کھائی۔ ذوالفقار علی بھٹونے ولی خان پر غداری کا مقدمہ قائم کیا۔ پھر ڈکٹیٹر جنرل ضیاء نے یہ مقدمہ ختم کیا۔ (باقی آیندہ ان شاء اللہ)