امریکا (اصل میڈیا ڈیسک) امریکی وزیر خارجہ نے مغربی دفاعی اتحاد نیٹو میں اصلاحات کے ساتھ ساتھ افغانستان سے ممکنہ امریکی فوجی انخلاء کے منصوبے کے بارے میں یورپی ممالک کو مکمل معلومات فراہم کرنے کا وعدہ کیا ہے۔
امریکی وزیر خارجہ اینتھونی بلنکن برسلز کے دورے پر ہیں۔ انہوں نے مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کے سکریٹری جنرل سے ابتدائی گفتگو کے بعد میڈیا کو ایک بیان دیتے ہوئے کہا،”امریکا اور اس کے مغربی اتحادی ایک ساتھ افغانستان میں داخل ہوئے تھے اور اب اکٹھے ہی وہاں سے نکلیں گے۔‘‘ بلنکن نیٹو ہیڈکواٹرز میں دو روزہ مذاکرات کے لیے برسلز پہنچے ہیں۔
نئی امریکی حکومت کے وزیر خارجہ اینتھونی بلنکن پہلی بار نیٹو کے ہیڈکواٹرز برسلز کے دورے پر ہیں، جہاں انہوں نے مغربی دفاعی اتحاد کے سکریٹری جنرل ژینس اشٹولٹن برگ سے ملاقات کی۔ اس موقع پر صحافیوں سے خطاب کرتے ہوئے بلنکن کا کہنا تھا کہ دنیا بھر میں پائے جانے والے خطرات اور ماحولیاتی تبدیلی جیسے چیلنجز کے تناظر میں موجودہ وقت نیٹو کے لیے غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے۔
امریکی وزیر خارجہ نے اپنے برسلز کے دورے کے بارے میں کہا،” میں یہاں امریکا کی نیٹو کے ساتھ وابستگی میں اس کی استقامت کا اظہار کرنے آیا ہوں۔‘‘ بلنکن کا مزید کہنا تھا،”امریکا سب سے پہلے اور ترجیحی بنیادوں پر مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کے ساتھ اپنے تعلقات کو مضبوط بنانا اور اس میں اپنی شرکت کی بحالی چاہتا ہے۔ ہم اپنے اتحاد کو مضبوط تر بناتے ہوئے اس کی احیاء چاہتے ہیں۔‘‘یورپ کو امریکی عسکری تعاون پر انحصار کم کرنا چاہیے، جرمن وزیر
امریکا کے سابق صدر اور ریپبلکن لیڈر ڈونلڈ ٹرمپ کے دور میں واشنگٹن اور مغربی دفاعی اتحاد کے مابین اختلافات اور تنازعات کے چار سال بعد اب ڈیموکریٹ لیڈر اور نئے امریکی صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ کی طرف سے دوستی بڑھانے کے سگنل کا برسلز میں نیٹو نے بھی خیر مقدم کیا ہے۔ یورپی اتحادیوں نے جو بائیڈن کے لہجے میں لچک اور دوطرفہ تعلقات کو دوستانہ بنانے کے اعلانات کو خوش آمدید کہا ہے۔ امریکا کے وزیر دفاع کا برسلز کا یہ دورہ اس بات کی ایک واضح علامت ہے کہ واشنگٹن نیٹو کیساتھ تعلقات کے احیا کی کوششوں میں سنجیدہ ہے اور موجودہ بین الاقوامی سیاسی صورتحال میں مغربی اتحادیوں کے ساتھ مل کر کام کرنے کا خواہش مند ہے۔
امریکی وزیر خارجہ سے برسلز میں جب افغانستان سے امریکی فوجیوں کے انخلاء کے امکانات کے بارے میں سوال کیا گیا تو بلنکن کا کہنا تھا کہ امریکا اس بارے میں ابھی متبادل امکانات کا جائزہ لے رہا ہے اور اس بارے میں وہ اپنے اتحادیوں سے مشورے بھی لے گا اور ان کی تجاویز بھی سنے گا۔ آئندہ دو روز کے دوران برسلز میں نیٹو وزراء افغانستان کے موضوع پر بحث و مباحثہ کریں گے۔ بلنکن نے کہا،” ہم اکھٹے افغانستان میں داخل ہوئے تھے، ہم نے حالات کے مطابق، موافقت اور باہمی ربط سے کام لیا اور ہم وہاں سے اکٹھے ہی نکلیں گے۔‘‘‘سیاسی حل کے بغیر افغانستان سرد جنگ کی لپیٹ میں آ سکتا ہے‘
یاد رہے کہ گزشتہ اتوار 21 مارچ کو امریکی وزیر دفاع لائیڈ آسٹن اچانک افغانستان پہنچے تھے، جہاں انہوں نے اس غیر اعلانیہ دورے پر کابل میں افغانستان کے صدر اشرف غنی سمیت سینئر افغان حکام سے ملاقاتیں کی تھیں۔ گزشتہ برس طالبان کے ساتھ ہونے والے معاہدے کے مطابق افغانستان سے امریکی فوج کے انخلاء میں اب چند ہفتے باقی رہ گئے ہیں اور اس لحاظ سے امریکی وزیر دفاع کا افغانستان کا وہ دورہ اور آج سے شروع ہونے والا امریکی وزیر خارجہ کا برسلز کا دورہ غیر معمولی اہمیت کے حامل ہیں۔
امریکی وزیر دفاع لائیڈ آسٹن کا افغانستان میں کہنا تھا، ”اس ملک میں تشدد کی سطح کافی زیادہ ہے۔ ہم حقیقتاً تشدد میں کمی دیکھنا چاہتے ہیں اور میرے خیال سے اگر اس میں کمی آ جائے تو کسی نتیجہ خیز سفارتی کام کے لیے ماحول بننے کا امکان پیدا ہو سکتا ہے۔‘‘
امریکی وزیر دفاع گزشتہ ہفتے ایشیا کے دورے پر تھے۔ افغانستان سے پہلے وہ جاپان، جنوبی کوریا اور بھارت بھی گئے تھے۔