تحریر : قادر خان یوسف زئی افغانستان کے صدر اشرف غنی نے ٹیلی ویژن پر اپنے ایک قومی خطاب کے دوران پاکستان کے خلاف ایک بار پھر ہرزہ سرائی کرتے ہوئے الزام عائد کیا کہ پاکستان ‘ طالبان’ کا مرکز ہے۔ انہوں نے دوبارہ اپنے مطالبے کو دوہرایا کہ اسلام آباد عسکریت پسندوں اور دوسرے دہشت گرد گروپس کے خاتمے کیلئے عملی اقدامات کرنے ہوں گے۔اشرف غنی نے یہ بھی الزام لگایا کہ شورش پسند پاکستان کو اپنے ایک ہیڈ کوارٹر کے طور پر استعمال کر رہے ہیں۔ اپنے ٹی وی خطاب میں افغان صدر کا کہنا تھا کہ “لوگ بھولیں گے نہیں۔ سو برس بھی گذر جائیں۔ افغان اس کا بدلہ ضرور لیں گے۔”
افغانستان میں گزشتہ دنوں حکومت مخالف گروپوں کی جانب سے پے در پے واقعات میں 140افراد ہلاک ہوئے تھے جس کا الزام حسب روایت افغانستان نے پاکستان پر لگایا ۔ اس بار افغان اعلیٰ حکام کاایک وفد افغان انٹیلی جنس کے سربراہ معصوم ستانکزئی اور وزیر داخلہ ویس برمک کے اچانک پاکستان پہنچنے پر وزیر اعظم پاکستان نے اپنی پہلے سے طے شدہ مصروفیات کو ملتوی کرکے اچانک آنے والے وفد سے ملاقات کی۔ افغان عہدے داروں کے دعویٰ کے مطابق انھوں نے پاکستانی سرزمین استعمال ہونے کے ٹھوس شواہد پاکستان کے حوالے کئے ہیں ۔امریکا اور افغانستان کا یہ رویہ نیا نہیں ہے بلکہ کئی عرصے سے پاکستان پر الزامات عائد کئے جاتے رہے ہیں۔
یہ طریقہ کار دراصل بھارت سے مستعار لیا گیا ہے جو خود تو پاکستان کی سرزمین میں دہشت گردی کی مختلف کاروائیوں میں ملوث ہے اور بھارتی حکمران برملا پاکستان میں مداخلت کا اعتراف بھی کرتے ہیں۔ بھارت کے بعد یہی طریق کار افغانستان نے استعمال کرنا شروع کیا اور اس بات سے قطع نظر کہ افغانستان میں امریکا اور کابل حکومت کے شکست کے کیا اسباب ہیں ، ہمیشہ اپنی ناکامی کا ملبہ پاکستان پر گرانے کی سازش کرتے رہتے ہیں۔پاکستانی وزرات خارجہ کے ترجمان محمد فیصل نے افغان وفد کے دورے کے دوران معلومات کے تبادلے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ” ہم فراہم کردہ معلومات کو دیکھیں گے اور جلد اُن سے رابطہ کریں گے۔”تاہم پاکستانی حکام نے ایک مرتبہ تمام الزامات کی تردید کی ہے کہ پاکستان حقانی نیٹ ورک اور افغان طالبان کی کوئی مدد نہیں کررہا اور انہیں پاکستان سرزمین استعمال کرنے کی اجازت بھی نہیں ہے۔
ہفتہ وار نیوز بریفنگ میں پاکستان کی وزرات خارجہ کے ترجمان نے افغانستان کی طرف سے لگائے گئے الزامات کی سختی سے تردید کرتے ہوئے کہا تھا کہ “ہم حقانی نیٹ یا طالبان کی حمایت اور انہیں اپنی سرزمین استعمال کرنے دینے کے الزامات کی تردید کرتے ہیں ۔ پاکستان اپنی سرزمین پر تمام دہشت گردوں کے خلاف کاروائی کررہا ہے۔”آج 03فروری کو ورکنگ گروپس کی سطح کے سلسلے میں پہلا مذاکراتی اجلاس کابل میں ہورہا ہے جس میں پاکستانی وفد کی قیادت سیکرٹری خارجہ تہمینہ جنجوعہ نے کی۔اسلام آباد اور کابل کے ساتھ 5مشترکہ ورکنگ گروپ تجویز کئے گئے ہیں جن کا مقصد دہشت گردی ، خفیہ معلومات کے تبادلے ، فوجی، معاشی ، اقتصادی ، تجارتی ، راہدری روابط ، پناہ گزینوں کی واپسی اور باہمی روابط پر توجہ دینا ہے۔واضح رہے کہ پاکستان اپنے اصولی موقف پر قائم ہے کہ افغانستان میں امن و استحکام کا حصول فوجی طاقت سے ممکن نہیں بلکہ افغانوں کی شمولیت اور زیر قیادت امن عمل ہی واحد راستہ ہے۔یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ امریکی صدر ٹرمپ واضح اعلان کرچکے ہیں کہ”امریکا افغان طالبان سے بات چیت نہیں کرنا چاہتا۔”ٹرمپ نے یہ بات اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے ساتھ ملاقات کے دوران کہی تھی۔اقوام متحدہ کے نمائندہ خصوصی تدامتی یاماموتو نے اپنے ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ “افغانستان میں مذاکرات اور سیاسی حل کے لئے تمام فریقین کی شمولیت ضروری ہے ، اس کیلئے پڑوسی ممالک ، خصوصاََ پاکستان کے ساتھ مل کر کام کرنا ہوگا ۔”ان کا یہ بھی ماننا تھا کہ افغان طالبان کے ساتھ بات چیت کے لئے افغانستان کے ہمسایہ ممالک کو بھی اعتماد میں لینا ضروری ہے ۔اس میں سب کی کوششیں شامل ہونی چاہیں۔ باغیوں ( افغان طالبان) سے رابطے کی کوشش کی جائے اور حقیقی مذاکرات کیلئے اُن کی بات سُنی جائے۔”بقول ایلچی “طالبان جب بھی مذاکرات کی میز پر آئیں یہ عمل کھلے عام نہیں ہونا چاہیے ، افغانستان میں پائیدار امن کے لئے کوششوں میں خطے کے مفادات بھی شامل ہونے چاہیں ، جس کے لئے خطے کے ممالک کے ساتھ مخلصانہ بات چیت ہونے چاہیے۔”
امریکی صدر ٹرمپ کے بیان پر اقوام متحدہ کی ایلچی کا انٹرویو پاکستان کی اہمیت کو ظاہر کرتا ہے اور پاکستان کے موقف کی تائید بھی کرتا نظر آتا ہے کہ طاقت کے ذریعے گزشتہ 17برسوں میں ناکامی کا سوا کا کچھ حاصل نہیں ہوا ہے اس لئے افغانستان میں پائدار امن کے لئے اسٹیک ہولڈر سے امن کے لئے مذاکرات ناگزیر ہیں۔ پاکستان نے سرکاری سطح پر بھی اس موقف کو دوہرایا ہے کہ افغان تنازع کو صرف مذاکرات کے ذریعے ہی حل کیا جاسکتا ہے ۔ ترجمان وزرات خارجہ محمد فیصل نے چار فریقی مشاورتی گروپ کو انتہائی مناسب فورم قرار دیا ہے ۔ اس گروپ میں پاکستان ، چین ، امریکہ اور افغانستان شامل ہیں ۔ ترجمان کے مطابق پاکستان ہر اُس امن عمل کی حمایت کرتا ہے ، جو افغانوں کی زیر قیادت اور ان کی شمولیت سے شروع کیا گیا ہو۔افغان حکومت’ کابل پراسس’ کے تحت ایک کانفرنس بھی منعقد کرے گی جس میں خطے کے ممالک کے علاوہ بین الااقوامی قوتوں کے نمائندے بھی شریک ہونگے ۔ پاکستانی دفتر خارجہ کانفرنس کے ممکنہ نتائج کی کامیابی کیلئے کہہ چکا ہے کہ اس کا دارومدار افغان حکومت کے طرز عمل پر ہے۔نیز افغان مہاجرین کی باعزت طریقے سے وطن واپسی ، منشیات اور پوست کی کاشت میں اضافہ اور افغان سرزمین سے پاکستان پر حملے کیسے مسائل اب بھی موجود ہیں۔
امریکی اور کابل حکومت کی جانب پاکستان پر الزامات کی روایات کو ایک مناسب عمل قرار نہیں دیا جاسکتا ۔ یہ امر اُس وقت مزید خوش آئند ہوتا جب کابل حکومت پاکستان دشمن عناصر کے بجائے زمینی حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے مثبت طرز عمل اپناتی۔کابل حکومت کا موجودہ رویہ تنائو میں اضافے کا سبب بن رہا ہے ۔ کابل اور امریکا کو سخت گیر رویئے سے گریز کرتے ہوئے لچک دار رویہ اپنانے کی ضرورت ہے۔ فریقین اگر واقعی افغانستان میں امن کے قیام کی خوائش رکھتے ہیں تو من مانی شرائط کے بجائے درمیانی راستہ اپنائیں جس سے مذاکرات کا عمل بڑھنے میں معاونت ملے۔مخالفانہ رویہ اور مذاکرات سے انکار کسی مسئلے کا حل نہیں ہے۔ خاص طور افغانستان کی موجودہ صورتحال کو دیکھا جائے تو امریکی سرکاری ادارے و حکام سمیت کابل حکومت کے عہدے دار بھی اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ افغانستان کے بڑے حصے پر امارات اسلامیہ کا قبضہ ہے۔
اس صورتحال میں جب کہ کابل حکومت کی عملدرآری صرف تیس فیصد کے قریب کے رقبے تک محدود ہوگئی ہے اور وہاں بھی امن کی صورتحال مستحکم نہیں ۔ امریکا اور کابل کا رویہ خطے میں امن کے بجائے جنگ کو طول دینے کا سبب بنے گا ۔ جس کا اظہار سابق افغان صدر حامد کرزئی بھی اپنے ایک انٹرویو میںکرچکے ہیں کہ صدر ٹرمپ کا افغان طالبان سے مذاکرات نہ کرنے کی پالیسی کی حمایت نہیں کرتے کیونکہ اس سے جنگ طول پکڑے گی۔ انہوں نے یہ بھی تسلیم کیا کہ اگر افغان طالبان اقتدار میں ہوتے تو اب تک افغانستان میں امن قائم ہوجاتا ۔جب افغانستا ن میں یہ صورتحال ہو کہ کابل حکومت اور امریکی افواج بھارت کو بھی ساتھ ملا کر افغانستان میں مکمل عملدآری کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکے تو بتدریج امریکی افواج میں اضافہ کیا افغانستان میں امن قائم کرسکتا ہے۔ حالانکہ امریکہ جانتا ہے کہ ایک لاکھ سے زاید غیر ملکی افواج پر کھربوں ڈالر خرچ کرنے کے باوجود افغانستان میں امارات اسلامیہ کو شکست نہیں دی جاسکی اور امریکی سرکاری ادارے سیگار آفس جان سویکو کی حالیہ رپورٹ کے مطابق افغان طالبان مضبوط اور امریکی گرفت کمزور ہو رہی ہے۔ کسی بھی جنگ کے خاتمے کے لئے ممکنہ اصول یہی رہا ہے کہ طاقت ور کی شرائط پر کمزور قوت کو مذاکرات پر آکر مسئلے کا حل نکالنا پڑتا ہے ۔ کیا افغانستان میں ثابت نہیں ہورہا کہ وہاں اس وقت زمینی اعتبار سے امارات اسلامیہ افغانستان طاقت کا مضبوط محور ہے ۔ جس کی دسترس کابل کے حساس ترین علاقوں پر بھی ہے جہاں وہ اپنے حملوں سے امریکی مفادات اور کابل کی مختصر راجدھانی کو نقصان پہنچاتے ہیں۔
ان حالات میں کہ جب امریکا ، کابل اور بھارت گٹھ جوڑ بھی افغانستان میں کامیاب نہیں ہو رہا تو اپنی شکست کو تسلیم کرنے کے بجائے اپنی ناکامی کا ملبہ پاکستان پر ڈالنے کی روش ایک اچھا اقدام قرار نہیں دیا جاسکتا ۔ بادی ٔالنظر اب تک حالات کے مطابق امریکا افغانستان میں امن کا خواہش مند نظر نہیں آتا ۔ اس کا کامل ثبوت اُس وقت بھی سامنے آیا تھا جب داعش کے جھنڈے سرکاری ٹینکوں پر لہرائے جا رہے تھے۔ امریکا ایک جانب داعش کے سو فیصد خاتمے کے دعوی کرتا ہے لیکن دوہرا معیار یہ ہے کہ داعش کو عراق و شام کے بعد افغانستان میں مضبوط کیا جارہا ہے ۔ امارات اسلامی افغانستان کی جنگ کی حدود صرف افغانستان کی آزادی کیلئے اپنی سرزمین تک محدود ہے لیکن عالمی دہشت گرد تنظیم داعش پوری دنیا میں پھیلی ہوئی ہے ۔ برطانیہ کی جانب سے یہ اعتراف بھی سامنے آچکا ہے کہ عراق و شام میں داعش کی شکست کی بعد برطانیہ سے تعلق رکھنے والے داعش افغانستان میں جمع ہوگئے ہیں۔
روس پہلے ہی دس ہزار داعش کی جنگجوئوں کی افغانستان میں جمع ہونے کا انکشاف کرچکا ہے۔ جبکہ افغانستان کے سابق صدر حامد کرزئی نے تو براہ راست امریکا پر الزام عائد کیا ہے کہ امریکا افغانستان میں داعش کے ساتھ ملا ہوا ہے اور داعش کو مضبوط کررہا ہے۔ سابق افغان صدر حامد کرزئی نے انکشاف کیا تھا کہ جنگجو تنظیم داعش افغانستان میں امریکی فوجی اڈے استعمال کررہی ہے اور امریکی اڈوں سے غیر فوجی رنگ کے ہیلی کاپٹروں کے زریعے داعش کو مدد فراہم کی جاتی ہے۔ امریکی صدر نے برطانوی خبر رساں ادارے کو انٹرویو میں واضح طور پر کہا کہ امریکی فوج اور خفیہ ایجنسیوں کی کڑی نگرانی اور موجودگی کے باوجود داعش نے کس طرح افغانستان میں اپنی جڑیں مضبوط کرلیں ۔ امریکا کو اس کا جواب دینا چاہیے کیونکہ اس کا جواب افغانستان کے بجائے امریکا کے پاس ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ انہیں شک سے زیادہ یقین ہے کہ داعش کو ہیلی کاپٹروں کے ذریعے الحہ پہنچایا جاتا ہے اور یہ صرف ملک کے ایک حصے میں نہیں بلکہ کئی حصوں میں ہورہا ہے۔ داعش کی طرف سے افغانستان میں نئے جنگجوئوں کو بھرتی کرنے کی پہلی ٹھوس شہادت اُس وقت سامنے آئی جب ہلمند صوبے کے کمانڈر ملا عبدالرئوف نے داعش کی اطاعت کا اعلان 2015میں کیا تھانیز داعش میں بچوں کی بھرتی کی خبریں اور اُن کی تربیت کی ویڈیوز بھی با افراط موجود ہیں۔ داعش نے پاکستان میں موجود افغان مہاجرین کیمپ میں بھی بھرتی کے لئے پمفلٹ اور ترغیبی اشتہارات تقسیم کئے تھے۔
علاوہ ازیں روسی وزرات خارجہ کے شعبہ مشرق وسطی کے سربراہ زیمیر کیبولوف کا یہ انکشاف بھی سامنے آچکا ہے کہ “داعش کے شدت پسند تاجسکتان اور ترکمانستان کے بارڈر سے ملحق افغان علاقوں میں جمع ہو رہے ہیں جو وسطی ایشیائی ممالک روس کے جنوبی علاقوں کے لئے بڑا خطرہ ثابت ہوں گے ۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ہم امریکا کو اس حوالے سے کئی بار متنبہ کرچکے ہیں لیکن اس کی طرف سے مسلسل اس خطرے کو نظر انداز کیا جارہا ہے ،حالانکہ داعش کی طرف سے افغانستان میں اپنی موجودگی کے کئی دعوے سامنے آچکے ہیں اور وہ اس ملک کو اپنا ‘ اڈا ‘ بنا کر باقی ممالک پر اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کے منصوبے پر کام ررہی ہے۔”جبکہ امریکہ نے ان الزامات کی تردید کرتے ہوئے اس کا ملبہ بھی پاکستان پر ڈالنے کی روش کو برقرار رکھا ۔ کابل میں افغانستان کیلئے امریکی سفیر جان باس نے ایک نیوز کانفرنس میں کہا کہ” داعش کو امریکا افغانستان نہیں لایا”۔ لیکن امریکی سفیر سابق افغان صدر و روس کے ان الزامات کا جواب نہیں دے سکے کہ داعش کو ہتھیار کون فراہم کررہا ہے اور ہیلی کاپٹرز کے ذریعے افغانستان کے مختلف حصوں میں داعش کو ہتھیاروں کو فراہمی کس طرح ممکن ہو رہی ہے۔ واضح رہے کہ داعش افغانستان مین صوبہ خراسان کے نام سے کام کررہا ہے۔
اس گروپ نے 2015میںافغانستان کے مشرقی علاقوں و صوبے ننگر ہار سے اپنی کاروائیوںکا آغاز کیا اور داعش بھی کابل میں مختلف کاروائیوں کی ذمے داری قبول کرتی ہے ، حالیہ دنوں ملٹری بیس اور ایک این جی او پر حملے کی ذمے داری داعش نے اٹھائی تھی۔گزشتہ دنوں افغانستان میں کام کرنے والی ایک این جی او ‘ سیو دی چلڈرن ‘ کے دفتر پر خودکش حملہ داعش نے کیا تھا جس میں تین افراد ہلاک اور 20زخمی ہوئے تھے۔اسی طرح 29جنوری کو داعش نے مارشل فہیم اکیڈمی پر حملہ کیا اور کئی گھنٹوں تک فائرنگ کا تبادلہ ہوتا رہا ۔ کابل حکومت کے ترجمان کے مطابق پانچ شدت پسند اس حملے میں ملوث تھے جس میں دو شدت پسند ہلاک ہوئے اور دو نے خود کو بم دھماکے میں اڑا لیا اور مبینہ طور پر کئی گھنٹوں کی فائرنگ کے بعد ایک حملہ آور کو زندہ گرفتار کرلیا گیا ۔ اس فوجی مرکز میں 11 اہلکار ہلاک اور16زخمی ہوئے تھے۔کابل حکومت کے فوجی مرکز کی جنگی قابلیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ایک فوجی مرکز پر پانچ شدت پسند حملہ آور ہوتے ہیں اور ان کے درمیان13گھنٹے مقابلہ جاری رہتا ہے۔افغانستان داعش کیلئے مضبوط مرکز بن رہا ہے اس کا اندازہ ولس سینٹر کے معاون اور سنیئر ایسوسی ایٹ مائیکل کوگل مین کے تبصرے سے کیا جا سکتا ہے جو امریکا کے موقر جریدے میں شائع ہوا تھا کہ “داعش افغانستان میں کامیاب اداروں کو نشانہ بنا رہی ہے، جس کا مقصد مایوسی پھیلانے کے علاوہ ترقی کی راہ ہموار کرنے کی علامات کو مٹانا ہے۔”سنیئر ایسوسی ایٹ مائیکل کوگل مین نے بھی اعتراف کیا کہ افغانستان کے400اضلاع میں سے40 سے50فیصد پر کنٹرول ہے ، 2001ء میں جب امریکا نے افغانستان پر حملہ کیا تھا تب سے کبھی اتنا زیادہ رقبہ طالبان کے زیر قبضہ نہیں رہا۔”
یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ افغانستان کے حالات کی درست عکاسی کرنے میں افغانستان میں موجود صحافیوں کو سخت مشکلات کا سامنا ہے اور زیادہ تر مشکلات حکومت کی جانب سے درپیش ہوتی ہیں ۔ ‘ این اے آئی’ کے انتظامی سربراہ دبدالمجیب خلوتگر نے اخباری نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا تھا کہ”افغان حکومت اور سرکار سے وابستہ اہلکار تشدد کے62مقدمات میں ملوث ہیں جن میں اخباری نمائندوں پر تشدد کیا گیا ۔خلوتگر نے یہ انکشاف بھی کیا کہ 11مقدمات ایسے ہیں جن پرتشدد واقعات میں ذرائع ابلاغ کے آجر شامل ہیں۔”کابل حکومت خود بھی تسلیم کرتی ہے کہ افغانستان کے 34صوبوں میں سے16میں داعش موجود ہے ۔ اب حقیقت سے نظر چرانے کے بجائے کابل حکومت کو اپنے سیکورٹی پلان میں مساجد، امام بارگاہوں عوامی مقامات اور مسلک کے نام پر نشانہ بنانے والی عالمی دہشت گرد تنظیم داعش پر توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔ افغان طالبان سے مقابلہ کرنے کے لئے داعش کی سرپرستی کابل اور امریکا کا ایک خطرناک اقدام ہے۔ امارات اسلامیہ اس وقت دنیا میں کسی ملک کے خلاف کسی بھی قسم کے پرتشدد واقعے میں ملوث نہیں پائی گئی۔ افغان طالبان کی تمام کاروائیاں کابل حکومت اور غیر ملکی فوجیوں کے خلاف کی جاتی ہیں۔ کابل حکومت عام شہریوں کا دعوی کرتی ہے لیکن عالمی میڈیا سمیت افغانستان کے ذرائع ابلاغ کو جائے وقوع پر کئی گھنٹوں تک جانے کی اجازت نہیں ہوتی۔ ذرائع ابلاغ پر دبائو ڈالا جاتا ہے کہ وہ عام شہریوں کی ہلاکتوں کی تصاویر و خبروں کو زیادہ کوریج دیں۔
یہی وجہ ہے کہ جب اصل حقائق سے انکار کیا جاتا ہے تو افغان اہلکار اور سر کار سے وابستہ افراد تشدد کا سہارا لیتے ہیں ۔ کابل حکومت اس سے پہلے بھی دنیا بھر میں ہونے والی شدت پسند کاروائیوں کی تصاویر کو افغان شہریوں کے نقصان بتانے کی ناکام کوشش کرچکی ہے جس میں ثابت ہوا تھا کہ کابل حکومت نے فوٹو شاپ کی مدد اور افغانستان سے باہر ہونے والے واقعات میں زخمیوں کی تصاویر میڈیا کو جاری کیں تھی جس کا پول چند گھنٹوں میں ہی کھل گیا تھا ۔ بہرحال ضرورت اس بات کی ہے کہ کابل کے صدر اشرف غنی بدلہ لینے کی بات درست کررہے ہیں کہ افغان قوم سو برس بعد بھی بدلہ لے گی ۔ لیکن شاید انہوںنے اس بات پر غور کرنا مناسب نہیں سمجھا کہ 1978سے لیکر آج تک غیر ملکی قوتوں نے افغان عوام کو جانی و مالی نقصان پہنچایا ہے ۔ تو کیا وہ افغان قوم دوسری ہے جو سوویت یونین کے بعد امریکا سے بدلہ نہیں لے گی ۔ پاکستان کی جانب انگشت نمائی کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے بلکہ اپنے زوایہ نگاہ کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے ۔ پاک۔افغان بارڈر منجمنٹ پر کابل نے صرف200چوکیاں بنائی ہیں جبکہ پاکستان نے ایک ہزار کے قریب تعمیر کردیں ہیں اور مسلسل اپنے وسائل سے دونوں ممالک کی سرحدوں کو محفوظ بنانے میں مصروف ہے ۔ اشرف غنی کو یاد رکھنا چاہیے کہ افغانستان کی سرحد سے اِس پار بھی پختون ہی بستے ہیں جو فرنٹ لائن پر کسی بھی قربانی سے دریغ نہیں کریں گے۔ ایک قوم کو افغانستان میں بدست و گریبان کرانے کے بعد پاکستان میں ایسی سازشوں کو کامیابی نہیں ملے گی ۔ اشرف غنی بھی پہلے اپنے گھر کو درست کریں تو یہ دونوں اسلامی ممالک کیلئے بہتر ہو گا۔