کابل (اصل میڈیا ڈیسک) افغان دارالحکومت کابل کے ہوائی اڈے پر ملک سے راہ فرار اختیار کرنے والوں کا ہجوم کم ہونے کا نام نہیں لے رہا۔ اس ہجوم کو متنبہ کیا گیا ہے کہ ان کی زندگیوں کو اسلامک اسٹیٹ کے حملے کا خطرہ ہو سکتا ہے۔
دہشت گرد گروپ اسلامک اسٹیٹ کے ممکنہ خطرے کی بات امریکی صدر جو بائیڈن نے بھی کی ہے، انہوں نے اس خطرے کو شدید قرار دیا۔ یہ خطرہ اس دہشت گرد تنظیم کے مقامی گروپ اسلامک اسٹیٹ خراسان (ISIS-K) کی جانب سے بتایا گیا ہے۔
کابل کے ہوائی اڈے پر موجود افغان شہریوں کے ہجوم کو امریکی صدر کے علاوہ برطانیہ اور آسٹریلیا کی جانب سے بھی ہدایت کی گئی ہے کہ وہ اپنی جانوں کا خیال رکھتے ہوئے کسی محفوظ مقام کی جانب منتقل ہو جائیں۔ بظاہر اس انتباہ کے باوجود ابھی تک اس ہجوم کو کسی دہشت گردانہ حملے کا نشانہ نہیں بنایا گیا ہے۔
اس تناظر میں جب طالبان کے ترجمان سے اس خطرے بابت پوچھا گیا کیا تو انہوں نے اسے بس ایک فضول بات قرار دی اور واضح کیا کہ اس سے ہجوم میں افراتفری پھیلانا مقصود ہے۔ ترجمان نے ہوائی اڈے پر پیدا صورت حال کا ذمہ دار امریکی انخلا کے انداز کو ٹھہرایا۔
سن 2014 میں عراق اور شام کے وسیع علاقے پر قبضہ حاصل کرنے کے بعد ابوبکر البغدادی کی جانب سے خلافت قائم کرنے کا اعلان سامنے آیا تھا۔ اس وقت اس جہادی تنظیم سے علیحدگی اختیار کرنے والے جنگجوؤں نے پاکستانی طالبان کے ساتھ ہاتھ ملا لیا تھا۔
اس تعلق کے استوار ہونے کے بعد ان جنگجوؤں نے اسلامک اسٹیٹ کا ایک مقامی گروہ قائم کر لیا۔ اس نے رفتہ رفتہ افغانستان کے شمال مشرقی صوبوں کنڑ، ننگرہار اور نورستان میں جڑیں مضبوط کرنے کا سلسلہ شروع کر دیا۔ ان صوبوں کے ساتھ کابل سمیت کچھ اور شہروں میں بھی خاموش چھوٹے چھوٹے دھڑوں کو متحرک کر دیا گیا تھا۔ ان کے جہادیوں کی مجموعی تعداد پانچ سو کے لگ بھگ بتائی جاتی ہے۔
خراسان ایک تاریخی نام ہے، جو ایشیائی براعظم کے ان ملکوں کو دیا جاتا ہے، جن میں اب پاکستان، ایران، افغانستان اور وسطی ایشیائی ریاستیں موجود ہیں۔
یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ ماضی میں افغانستان اور پاکستان میں اسلامک اسٹیٹ کے گروپوں نے انتہائی خوفناک دہشت گرادنہ کارروائیاں کی تھیں۔ ان کے خودکش بم حملوں میں سینکڑوں انسانی جانیں ضائع ہوئی تھیں۔
ان کا نشانہ شیعہ مسلمان رہے تھے۔ اس مقصد کے لیے ان دہشت گرد گروہوں نے مسجد، مزارات، ہسپتالوں اور بھیڑ کے مقامات کو اہداف بنایا۔
گزشتہ برس اسلامک اسٹیٹ سے وابستگی رکھنے والے دہشت گردوں نے کابل کے ایک ایسے ہسپتال پر حملہ کیا ، جو ایک شیعہ آبادی کے قریب واقع تھا۔ اس دوران دہشت گردوں نے ہسپتال کے میٹرنٹی وارڈ کو نشانہ بنایا اور کم از کم سولہ ایسی عورتوں کو ہلاک کر دیا، جن کے ہاں بچوں کی پیدائش ہو چکی تھی یا ہونے والی تھی۔
مختلف مقامات پر دہشت گردانہ حملوں کے علاوہ افغانستان میں جڑیں پکڑتی اسلامک اسٹیٹ خراسان کسی بڑے زمینی علاقے پر عمل داری قائم کرنے میں ناکام رہی ہے۔
امریکی جائزے کے مطابق اس دہشت گرد گروپ کو پے در پے شکستوں کا سامنا کرنا پڑا تھا اور ان کے بعد اب خفیہ انداز میں چھوٹے چھوٹے گروپوں کی شکل میں اس نے اپنی کارروائیوں کا سلسلہ شروع کر دیا ہے۔
یہ امر اہم ہے کہ اسلامک اسٹیٹ کے دونوں بڑے دھڑے خود کو سخت عقیدے کے سنی مسلمان قرار دیتے ہیں اور ان کے درمیان کسی بھی قسم کا ربط اور تعلق نہیں پایا جاتا۔ اسلامک اسٹیٹ تو طالبان کو بھی تکفیری یا دائرہ اسلام سے خارج سمجھتی ہے۔ کئی جہادی گروپوں نے طالبان کو افغانستان میں کامیابی پر مبارک باد دی لیکن اسلامک اسٹیٹ نے ایسا کرنے کا سوچا بھی نہیں۔
افغانستان کے طول و عرض پر طالبان کے عملی کنٹرول حاصل کرنے کے بعد ننگر ہار اور کنڑ صوبوں میں کچھ عرصہ قبل تک سرگرم اور فعال جہادی گروپ اسلامک اسٹیٹ اب کسی حد تک خاموش دکھائی دیتا ہے۔