کابل (جیوڈیسک) اقوامِ متحدہ کی ایک نئی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ افغانستان کا عدالتی نظام افغانستان میں طالبان کی حکومت ختم ہونے کے بعد اب بھی عورتوں کو انصاف دلانے میں ناکام ہے۔
اقوامِ متحدہ کی جاری اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ عورتوں کے خلاف تشدد کے صرف پانچ فیصد کیسوں میں مجرموں کو سزائیں سنائی جاتی ہیں۔ اقوامِ متحدہ میں انسانی حقوق کے اسسٹنٹ سیکرٹری جنرل ایون سیمونووچ نے کابل میں ایک نیوز کانفرنس میں کہا کہ تشدد کا شکار ہونے والی عورتوں اور لڑکیوں کے انٹرویوز سے معلوم ہوا ہے کہ عدالتی نظام کے سست، بدعنوان اور دور ہونے کا منفی تاثر عورتوں کو تشدد کرنے والوں کے خلاف عدالتی کارروائی کرنے سے روکتا ہے۔ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا کہ کئی افغان عورتیں انہی مردوں کی زیرِ کفالت ہوتی ہیں جو ان پر تشدد کرتے ہیں۔
سیمونووچ نے کہا کہ ایک عورت جو حکام کے پاس اپنے شوہر کے خلاف تشدد کی شکایت لے کر جاتی ہے اسے اپنے شوہر کا گھر چھوڑنا پڑتا ہے اور اس کے پاس جانے کی اور کوئی جگہ نہیں ہوتی۔ افغانستان کا آئین عورتوں کے برابر حقوق کی ضمانت دیتا ہے۔
حالیہ برسوں میں عورتوں کے لئے تعلیم اور ملازمت کے مواقعوں میں بہتری آئی ہے مگر اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ روایات اور خاندان کے دبائو کے ساتھ عدالتی اہلکاروں کی جانب سے مبینہ بدعنوانی اور اختیارات کے غلط استعمال کی وجہ سے بہت سی عورتیں یہ محسوس کرتی ہیں کہ انصاف پانے کی کوئی جگہ نہیں ہے۔ اقوامِ متحدہ کے حکام نے افغان حکومت پر زور دیا ہے کہ وہ عورتوں کی انصاف تک رسائی کو بہتر بنانے کے لئے اداراہ جاتی اور پالیسی اصلاحات اپنائے اور ان کو تشدد سے بچانے کے لیے قوانین نافذ کرے۔