افغانستان (جیوڈیسک) افغانستان کے جنوبی صوبہ ہلمند کے مرکزی شہر لشکر گاہ کے قریب طالبان اور افغان سکیورٹی فورسز کے درمیان گھمسان کی لڑائی جاری ہے اور حکام کے مطابق سکیورٹی فورسز کے مزید دستے بھی یہاں تعینات کر دیے گئے ہیں۔
سکیورٹی حکام اور مقامی عمائدین کی طرف سے یہ کہا جا رہا ہے کہ لشکر گاہ کے لیے خطرہ موجود ہے لیکن ان کے بقول صورتحال قابو میں ہے۔
تاہم بعض افغان حکام نے متنبہ کیا ہے کہ جنوبی صوبہ ہلمند کا مرکزی شہر لشکر گاہ طالبان کے قبضے میں جا سکتا ہے۔ صوبائی کونسل کے سربراہ کریم اتل کہنا ہے کہ طالبان نے لشکر گاہ شہر کو پوری طرح سے گھیر لیا ہے۔
خبر رساں ادارے رائیٹرز کے مطابق انھوں نے متنبہ کہا کہ “اگر ہمیں مرکزی حکومت کی طرف سے مدد نہیں ملتی تو صوبہ جلد ہی (ہاتھوں سے نکل) جائے گا۔” کریم اتل کے بقول بدھ کو “تازہ دم فورسز” پہنچ رہی ہیں۔
اُدھر افغان وزارت داخلہ کے ترجمان صدیق صدیقی نے سماجی رابطے کی ویب سائیٹ ٹوئیٹر پر ایک پیغام میں کہا کہ افغان سکیورٹی کے ادارے شدت پسندوں کو اُن کے مقاصد کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔
لڑائی کے باعث لشکر گاہ کے لیے بڑی شاہراہیں بند ہیں جس کی وجہ سے شہر میں خوراک اور دیگر اشیائے ضروری کی قلت کی اطلاعات بھی سامنے آئی ہیں جب کہ یہ خبریں بھی موصول ہو چکی ہیں کہ یہاں سے ہزاروں افراد نے لڑائی کے پیش نظر نقل مکانی کی ہے۔
طالبان نے شہر کے مرکزی حصے سے چند کلو میٹر دور چند علاقوں پر قبضہ کر رکھا ہے۔
بین الاقوامی غیر سرکاری طبی امدادی تنظیم “ڈاکٹرز ود آؤٹ بارڈرز” کے ایک نمائندے کے مطابق تنظیم نے لشکر گاہ میں اپنی سرگرمیوں کو محدود کرتے ہوئے اپنے غیر ملکی عملے کی تعداد کو کم کر دیا ہے اور یہاں صرف ہنگامی طبی امداد کی سہولت کو جاری رکھا ہے۔
ان کے بقول یہاں تنظیم کے زیر انتظام تین سو بستروں کا اسپتال کام کر رہا ہے لیکن حالیہ دنوں میں لڑائی کے باعث سڑکیں بند ہونے کی وجہ سے یہاں مریضوں کی تعداد میں کمی دیکھی گئی ہے۔